پاکستانی شیعہ خبریں

پاکستان میں پگڑی بم دھماکوں سے طالبان نے مقدس سرپوش کو بھی سیکیورٹی رسک بنا دیا

شیعہ نیوز (پشاور) پاکستانی عوام کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ایک بار پھر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ انہیں اسلام اور سماجی اقدار کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ پشاور کے سینما میں 2 فروری کو ایک خودکش بمبار نے اپنی پگڑی میں چھپائے ہوئے بم کا دھماکہ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں کم از کم پانچ افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ پشاور میں تحریک طالبان پاکستان سے منسلک ایک گروہ نے ابتدا میں اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا مگر بعد میں اس نے دھماکے میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا۔ مقدس علامات کی بے حرمتی پاکستانی عوام کے نزدیک کالعدم  طالبان کی جانب سے مقدس علامات کی بے حرمتی ایک مکروہ فعل ہے۔
پشاور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نجیب اللہ نے میڈیا سے گفتگو میں اس ہتھکنڈے کو استعمال کرنے کے لیے عسکریت پسندوں کے جواز کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے حفاظتی اقدامات کو جل دینے کے لیے پگڑی کو استعمال کیا۔ پولیس اور نجی سیکورٹی اہلکاروں نے اس وجہ سے پگڑی کو چیک نہیں کیا کہ ان کے خیال میں شورش پسند کبھی بھی اس مقدس سرپوش کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد لوگوں کو سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں سخت سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اب وہ پگڑی پہنے ہوئے افراد کی بھی تلاشی لیں گے۔
پشاور کی ایک  مسجد کے ایک پیش امام مولانا محمد رفیق نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں پگڑی کو بالا دستی کی نشانی سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسے قبائلی سردار یا انتہائی قابل احترام علماء پہنتے ہیں۔متاثرہ سینما کے باہر تعینات ایک گارڈ غنی شاہ نےبتایا کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ دہشت گرد پگڑی میں بم چھپائیں گے اور اسی وجہ سے میں نے انہیں چیک کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ ہم پگڑی پہننے والوں کی زیادہ عزت کرتے تھے۔
 عسکریت پسندوں نے مذہبی اور سماجی روایات کو نظر انداز کر کے اسلام اور سماجی اقدار سے اپنی بے اعتنائی کا ثبوت پیش کر دیا ہے۔ طالبان اپنی دہشت گردی کا ارتکاب کرنے کے لیے پہلے بھی خواتین اور بچوں کو خودکش بمباروں کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں اور اب وہ لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے زیادہ اختراعی طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ سیاسی قائدین نے بھی مذہبی لباس کی بے حرمتی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین نے کہا کہ اسکولوں، مساجد، جنازوں، جرگوں، بازاروں اور صحت کے مراکز پر بم حملے طالبان کی طرز کی دہشت گردی کا طرہ امتیاز ہیں۔ پگڑی کا استعمال ایک نیا ہتھکنڈہ ہے جو طالبان کے لیے بدنامی کا باعث بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں نے بعض بم دھماکوں میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا بھی ارتکاب کیا۔ خطے میں مقدس علامات کی بے حرمتی کی تاریخ پاکستان میں عسکریت پسندوں کی جانب سے پگڑی میں بم چھپانا ایک نیا ہتھکنڈہ ہے مگر افغانستان میں یہ چیز نئی نہیں ہے جہاں اس طرح کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔ اسی طرح کے ایک واقعے میں قندھار میں جولائی 2011 میں ایک خودکش بمبار نے اپنی پگڑی میں چھپائے ہوئے دھماکہ خیز مواد کے ذریعے افغان صدر حامد کرزئی کے سوتیلے بھائی احمد ولی کے جنازے کو ہدف بنایا تھا۔ اس بم دھماکے میں پانچ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
اسی ماہ کے اواخر میں قندھار کے میئر غلام حیدر حمیدی ایک خودکش بمبار کے حملے میں جاں بحق ہوئے تھے جس نے اپنی پگڑی میں بم چھپا رکھا تھا۔ایک اور پگڑی بمبار نے 20 ستمبر 2011 کو افغان اعلٰی امن شورٰی کے سربراہ اور سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کو کابل میں ان کے گھر پر قتل کر دیا تھا۔سال 2011 میں پگڑی کے ذریعے خودکش بم دھماکوں کی ایک لہر کے بعد صدر حامد کرزئی نے دینی علماء پر زور دیا تھا کہ وہ ایک مہم چلائیں جس میں دہشت گردی کے لیے مذہبی لباس کے غلط استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button