مضامین

پاک ایران تعلقات

تحریر: آغا مسعود حسین

گذشتہ دو ماہ سے ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ایران کے پانچ سکیورٹی گارڈز کو پاکستان کی سرحد کے قریب سے اغوا کرلیا گیا تھا، جس کا الزام ایران نے پاکستان پر عائد کیا تھا، حالانکہ پاکستان نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کے بارڈر سکیورٹی گارڈز کو پاکستان کے کسی ادارے نے اغوا نہیں کیا بلکہ یہ علاقے میں موجود دہشت گردوں کی کارروائی ہوسکتی ہے۔ (اس وقت چار بارڈر سکیورٹی گارڈ ایران پہنچ چکے ہیں جبکہ ایک کے بارے میں شبہ ہے کہ مار دیا گیا)؛ چنانچہ ان گارڈز کی واپسی کے بعد کسی حد تک ایران پاکستان تعلقات میں کشیدگی کم ہوئی ہے، جو ان دونوں پڑوسی اسلامی ملکوں کے لیے اچھا شگون ہے۔

ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم اور بامقصد بنانے کے لئے وزیراعظم میاں نواز شریف گیارہ مئی سے دو دن کے دورے پر ایران جا رہے ہیں، جہاں ایرانی قیادت سے علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیتے ہوئے باہمی تعلقات کو زیادہ مضبوط اور موثر بنانے کا عہد کیا جائے گا۔ ایران اگست 1947ء میں آزادی کے بعد، پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا۔ ہر عالمی فورم پر ایران نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ آج بھی ان دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات تمام تر نشیب و فراز کے باوجود فروغ پذیر ہیں۔ حسن اتفاق ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں شہید نے بھی مئی (1949ء) کے مہینے میں ہی ایران کا دورہ کرکے دونوں ملکوں کے تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا تھا۔

اس پس منظر میں وزیراعظم کا دورۂ ایران اس لئے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ موجودہ حکومت کا جھکائو سعودی عرب کی طرف بڑھتا اور پڑوسی ممالک خصوصاً ایران کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی گھٹ رہی ہے۔ ویسے بھی پاکستان کی وزارت خارجہ نے دبے لفظوں میں حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ باہمی تعلقات کو کسی ایک ملک کے ساتھ اس طرح وابستہ نہ کرے کہ دوسرے ممالک ان تعلقات سے متعلق شک و شبے میں مبتلا ہوجائیں، بلکہ کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات میں بیلنس ہونا چاہے۔ اس حقیقت کو پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کے مشیر سرتاج عزیز نے بہت پہلے محسوس کر لیا تھا اور وہ اسی سلسلے میں ایران بھی گئے تھے، تاکہ ایرانی قیادت کو اعتماد میں لے کر یہ بات گوش گزار کی جائے کہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ایران کے خلاف نہیں ہیں بلکہ پاکستان کی تو یہ کوشش ہوگی کہ ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات میں اگر کوئی کجی یا غلط فہمی ہے تو اسے دور ہونا چاہیے، بلکہ پاکستان اس سلسلے میں مدد بھی کرسکتا ہے۔

جیسا کہ میں نے اوپر کہیں لکھا ہے کہ گیارہ مئی سے وزیراعظم میاں نواز شریف ایران کے دورے پر جا رہے ہیں، جہاں وہ ایرانی قیادت سے تجدید عہد وفا کریں گے بلکہ انہیں یہ یقین بھی دلائیں گے کہ پاکستان کی جانب سے ایران کی سرحدوں کے اندر کسی قسم کی مداخلت نہیں ہو رہی، بلکہ پاکستان ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایرانی قیادت کو یہ بھی باور کرایا جائے گا کہ پاکستانی بلوچستان کے بعض علاقوں میں علیحدگی پسندوں نے جو توڑ پھوڑ اور قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، اس سے پاکستان خود بھی پریشان اور نالاں ہے، جبکہ ایف سی ان کی مسلسل سرکوبی کر رہی ہے۔ دوسری طرف یہی شرپسند عناصر سرحد پار ایرانی بلوچستان میں دہشت گردی کا ارتکاب کرتے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن انشاء اللہ وہ اپنی مذموم حرکتوں میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔

دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے کی غرض سے پیر کے روز ایران کے وزیر داخلہ جناب عبدالرضا رحمانی فضلی اسلام آباد آئے تھے، اور اپنے ہم منصب چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ملاقات کے دوران ان دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں پر ہونے والے واقعات پر تبادلہ خیال کیا تھا، اور یہ طے پایا تھا کہ دہشت گردی اور اغوا سے متعلق واقعات کے انسداد کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان دونوں ملکوں کے مابین انٹیلی جنس شیئرنگ ہونی چاہیے، بلکہ اسے زیادہ موثر بنایا جائے، معلومات کے تبادلے کی بنیاد پر یہ دونوں ملک اپنے اپنے علاقوں میں سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کرسکیں گے۔ جناب رحمانی فضلی اور چوہدری نثار علی خان کے مابین ملاقات ان دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں خوشگوار اضافے کا باعث بنی ہے، ویسے بھی ایران اور پاکستان کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کے علاوہ 1999ء سے آزاد تجارت کا معاہدہ موجود ہے، جس کی وجہ سے تجارتی تعلقات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان نے 1980ء کی دہائی میں ایران، عراق کے درمیان ہونے والی جنگ میں ایران کی مکمل حمایت کی تھی۔ پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت بلکہ کم و بیش تمام پاکستانی، ایران سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، اور باہمی تعلقات کو بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن اس ساتھ ہی وہ سعودی عرب سے بھی اپنے تعلقات کو مزید مستحکم و مضبوط ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، ویسے بھی دنیا کے تمام مسلمانوں کا ایمانی و دینی مرکز مکہ اور مدینہ سے منسلک ہے۔ اس لحاظ سے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات دو بھائیوں کے درمیان نہ ٹوٹنے والے رشتوں سے جُڑے ہوئے ہیں۔

بہرحال وزیراعظم میاں نواز شریف کا دورہ ایران، باہمی تعلقات میں مزید بہتری اور تفہیم کا باعث بنے گا، ا
ور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں مزید اضافہ ممکن ہوسکے گا۔ ایران پاک گیس پائپ لائن (740 کلو میٹر لمبی) کا مسئلہ بھی زیر بحث آئے گا۔ اگر پاکستان نے دسمبر 1914ء تک اپنی طرف کی گیس پائپ لائن تعمیر نہ کی تو اسے روزانہ ایک ملین ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کے لیے اتنی بڑی رقم ادا کرنا خاصا مشکل ہوگا۔ وزیراعظم اس اہم مسئلہ پر ایرانی قیادت سے بات کریں گے۔ ممکن ہے کہ ایرانی صدر محترم حسن روحانی سے درخواست کریں کہ اس رقم کی ادائیگی کو فی الحال موخر کر دیا جائے، اگر ایسا ہوگیا تو پاکستان ایران تعلقات میں مزید بہتری پیدا ہوسکے گی۔
"روزنامہ دنیا”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button