مضامین

طلباء سیاست اور ملی خدمت میں آئی ایس او کا کردار (خصوصی مضمون)

تحریر: ارشاد حسین ناصر

 ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں نظریاتی سیاست ہوتی تھی، اس دور میں طلباء میں بھی اس نظریاتی سیاست کا رنگ غالب دکھائی دیتا تھا، اس زمانے میں طلباء تنظیمیں بھی بہت فعال، متحرک رہتیں اور طلباء کو اپنی جانب لانے کیلئے انقلابی نظریات کیساتھ ساتھ کارکردگی بھی دکھاتی تھیں، ایوب خان کیخلاف طلباء بھی تحریک کا حصہ تھے، اس زمانے میں طلباء بھی دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم کا شکار تھے، اس زمانے میں سوشلسٹ نظریات کالجز و یونیورسٹیز میں تیزی سے پھیل گئے تھے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ملت کے طلباء جو کہیں شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے نام سے کام کر رہے تھے، تو کسی دوسرے کالج میں امامیہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے جدوجہد میں مصروف تھے، کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کیلئے 22 مئی 1972ء کے دن انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں کاروان امامیہ کا تاسیسی اجلاس ہوا، اسی اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ کہ آئندہ مختلف ناموں کے بجائے مشترکہ طور پر جدوجہد کی جائے گی، اس حوالے سے دستور العمل اور اصول و ضوابط طے کرنے کیلئے 11جون کو میو ہسپتال میں واقع ڈاکٹر ماجد نوروز عابدی کے گھر پر اجلاس منعقد کیا گیا۔

اس اجلاس میں بزرگ علماء قبلہ مولانا مرتضٰی حسین صدرالافاضل، قبلہ آغا علی الموسوی، قبلہ صفدر حسین نجفی، قبلہ صادق علی نجفی بھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں یہ طے ہوگیا کہ تمام تنظیموں کو ایک ہی نام سے ایک ہی دستور کے تحت کام کرنا ہوگا، علماء نے استخارہ کے ذریعے نام منتخب کیا، جو امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان تھا، اس اجلاس میں تنظیم کا عبوری سیٹ اپ بھی چنا گیا۔ برادر سید مرغوب حسین زیدی جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے طالبعلم تھے، کو عبوری مدت کیلئے صدر منتخب کیا گیا،( مرغوب حسین زیدی آرمی کی میڈیکل کور میں بطور بریگیڈیئر خدمات دیتے رہے، چند برس پہلے ہی ان کا انتقال ہوا ہے)، جبکہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے طالبعلم علی رضا نقوی مرکزی جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے۔ یوں اس کاروان الٰہی نے اپنا رخت سفر باندھا اور پھر حی علی خیرالعمل کی صداؤں میں آگے ہی بڑھتا رہا۔ کہتے ہیں کہ جہاں جوان خون ہو، وہاں لڑائی و جھگڑے ہونا معمول بن جاتا ہے، ایسے میں والدین بہت محتاط ہوتے ہیں کہ ان کا بیٹا کسی غلط کمپنی یا ماحول کا شکار نہ ہو جائے۔ طلباء تنظیمیں بھی چونکہ ایسے لڑائی جھگڑوں کے باعث جانی پہچانی جاتی تھیں، لہذٰا والدین ہمیشہ اپنے بچوں کو یہ کہہ کر کالج میں داخل کرواتے تھے کہ کسی اسٹوڈنٹس تنظیم کا حصہ نہ بننا، یہ ایک الگ مشکل ہوتی تھی، طلباء کو اپنی جانب متوجہ کرکے ہم سفر بنانے میں۔ 

ادھر پیپلز پارٹی کے بانی ذولفقار علی بھٹو ملک کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے ٹریڈ یونینز، طلباء یونینز اور لیبر یونینز کو آزادی دی اور الیکشن بھی کروائے، آئی ایس او کے برادران نے بھی طلباء سیاست میں حصہ لیا اور اپنے وجود کا اظہار کیا، الیکشن میں حصہ لینے والے برادران کا تعلق اگرچہ اس تنظیم سے ہوتا تھا مگر حکمت عملی کے تحت کسی دوسری تنظیم یا گروپ کے ساتھ مل کر حصہ لیا جاتا تھا، پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین جناب ذوالفقار علی بھٹو کی ان پالیسیوں سے ملک میں جمہوری قدروں کو فروغ ملا، بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تو عوام کے بنیادی حقوق بھی چھن گئے اور جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء کے ذریعے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کیلئے طلباء یونینز پر بھی پابندی لگا دی۔ اس کے گیارہ سالہ دور اقتدار میں طلباء یونینز پر تو پابندی لگی رہی مگر طلباء سیاست تنظیموں کی شکل میں جاری رہی۔ مختلف کالجز اور یونیورسٹیز میں طلباء سیاست کے اثرات ہر دن دیکھے جاسکتے تھے، کبھی کہیں ہنگامہ، کبھی کہیں لڑائی و جھگڑا، کہیں ایک تنظیم کے کارکنان کے سر پھوڑے جا رہے ہوتے تو کسی دوسری جگہ اس تنظیم کو جواب دینے کے لئے اس کے حامیوں کو گولیوں، لاٹھیوں اور ڈنڈوں کا شکار کیا جاتا، نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ تعلیمی ادارے قتل گاہوں میں تبدیل ہوگئیں، نا جانے کتنی ہی ماؤں کے لاڈلے جن کے سہانے مستقبل کے خواب والدین نے دیکھے تھے، اسی قتل و غارت اور قبضہ گروپنگ کی سیاست کی نظر ہوگئے۔

امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان اور دیگر طلباء تنظیموں میں کیا فرق تھا کہ یہ تنظیم آج بھی اپنے وجود کیساتھ بھرپور انداز میں فعال کردار ادا کر رہی ہے اور اس کی کونسی خدمات کو ناقابل فراموش کہا جاسکتا ہے، اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی طویل جدوجہد میں بہت سے تاریخی موڑ آئے ہیں، اس تنظیم نے کئی ایک سنگ میل طے کئے ہیں، اس کی خدمات اور جدوجہد و کارنامے یقیناً کتب لکھنے کے متقاضی ہیں، ہاں اگر چیدہ چیدہ خدمات، کارہائے نمایاں، قوم، ملک و ملت پر اس کے مثبت و دیرپا اثرات کو اگر انتہائی جامع اور مختصر ترین الفاظ میں بیان کیا جائے تو 22 مئی 1972ء کو یہ کارروان باقاعدہ طور پر قائم ہوگیا تھا اور اپنی تاسیس کے ساتھ ہی اس کے ذمہ داران نے اس کی وسعت اور توسیع کیلئے کوششیں شروع کر دی تھیں۔ اس سے قبل مختلف ناموں سے جو کاروان لاہور کے کالجز کی سطح پر کام کر رہے تھے، سب اس میں ضم ہوگئے تھے، اسے شیعہ طلباء کا پہلا ملک گیر پلیٹ فارم بنانے کا کام ایک چیلنج تھا، جس کو بہت تھوڑے عرصہ میں حاصل کیا گیا۔

اس سے پہلے قومی افق پر شیعہ مطالبات کمیٹی کے نام سے ایک تحریک چلا رہے تھے، جن کی سوچ محدود تھی اور ان کے پاس قوم کی ترقی و تعم
یر اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کا کوئی واضح برنامہ، ہدف و پروگرام نہیں تھا، اس کاروان الٰہی سے وابستہ نوجوانوں نے سابقہ تجربات کی روشنی میں یہ طے کیا تھا کہ اس تنظیم سے فارغ ہونے والے طلباء جو عملی زندگی میں قدم رکھیں گے، انہیں ایک لڑی میں پرویا جائے گا، ان سے روابط مستحکم رکھے جائیں گے، انہیں معاشرے کی آلودگیوں اور چکا چوند میں کھلا نہیں چھوڑا جائے گا، اس مقصد کے حصول کیلئے پیش رفت کی اور 1974ء میں اس تنظیم سے فارغ التحصیل ہونے والے برادران کی کوششوں سے ہی سابقین کا ایک پلیٹ فارم امامیہ آرگنائزیشن پاکستان کے نام سے سامنے آگیا (یہ شعبہ اب سابقین کے نام سے ہی کام کر رہا ہے، جبکہ امامیہ آرگنائزیشن اپنے وسیع مقاصد کے حصول کیلئے کوشاں ہے)۔
 
پاکستان کے ہمسائے ملک ایران میں امام خمینی کی قیادت میں شہنشاہیت کیخلاف تحریک انقلاب زوروں پر تھی تو اس تنظیم کے باشعور اور بلند فکر دور اندیش نوجوانوں نے 1978ء میں انقلاب سے قبل انقلاب اسلامی کے قائد امام خمینیؒ کی حمایت میں لاہور کے مال روڈ پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور رہبر انقلاب روح اللہ خمینی جو فرانس میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہے تھے، ان سے یکجہتی کا اظہار و حمایتی خط بھی ارسال کیا، جو اس بات کی غماضی کرتا ہے کہ اس دور میں بھی جب ان نوجوانوں نے کسی سے بھی ولایت فقیہ کی گھٹی نہیں لی تھی، اس کارروان کا ہر فرد ولی فقیہ امام خمینی کی بلند معرفت رکھتا تھا۔ اس دور کے لوگ آج کے "پیروان ولایت” کے دعویداروں سے کہیں زیادہ آگاہ، پیرو اور تسلیم کہے جاسکتے ہیں، اس لئے کہ ان لوگوں نے انقلاب کو دیکھے بنا اس کی حمایت کی تھی جبکہ وہ اس کے ثمرات سے لطف اندوز ہونے کے شرف سے محروم تھے۔ آج کی طرح ان کے پاس وسائل بھی نہیں ہوتے تھے، ان کے پاس بسیجیوں جیسی آئیدیل فورس بھی نہیں تھی، جن کی مثال دیکر نوجوانوں کو متوجہ کیا جاتا، جو کچھ بھی تھے یہ خود تھے اور ان کی سرپرستی کرنے والے گنتی کے چند علماء تھے، جو ان نوجوانوں کو دینی تربیت اور فکری غذا فراہم کرتے تھے۔
 
اس بات کا اعتراف کئے بنا آگے نہیں بڑھ سکتے کہ اسی کاروان نے یونیورسٹیز اور کالجز کے طالبعلم ہوتے ہوئے مجاہدانہ و عالمانہ کردار ادا کیا اور امام خمینی کی انقلابی سوچ و افکار کی تبلیغ کا بیڑا اٹھایا جبکہ ان کی مخالفت کا دم بھرنے والے بہت سے اہل تشیع میں بھی موجود تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس طویل عرصہ میں اس تنظیم کی جدوجہد کی بدولت ہی یہ ممکن ہوا کہ دینی لباس، عبا و عمامہ کو لوگوں نے تقدیس دی۔ انقلاب کی کرنوں نے جہاں بھی روشنی پھینکی وہاں خزانوں کے کنویں نکل آئے، مگر یہ بات کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ اس انقلاب کو جب بھی دفاع کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہی مخلص للٰہی نوجوانوں نے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا۔ نہ صرف انقلاب کی ترویج و حفاظت کا بیڑہ اٹھایا بلکہ اسلامی و اخلاقی اقدار کے فروغ اور تاریخ کے تلخ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے کئی ایک حوالوں سے اپنے ہی لوگوں کی مخالفت بھی مول لی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کی۔

طلباء تنظیم ہونے کے ناتے اس تنظیم نے ہمیشہ طالبعلموں کی تعلیمی، فکری اور روحانی تربیت کا ساماں کرنے میں سخت کوششیں کی ہیں، تعلیمی حوالے سے اس تنظیم کی خدمات اور کارہائے نمایاں کو دیکھا جائے تو اس تنظیم نے ہر ڈویژنل مقام پر امتحان سے پہلے امتحان کا خوبصورت آئیڈیا دیا ہے، جس سے طالبعلم امتحانی پیٹرن پر فائنل امتحان سے پہلے ہی اپنی کارکردگی کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ اسی طرح لائق، ذہین طالبعلموں کو مالی پریشانی سے نجات دینے اور ان کے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے تعلیمی وظائف کا سلسلہ بھی بےحد اہمیت کا حامل ہے، جس کے باعث آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی تنظیموں کو زمانے کی گرم ہوا کے تھپیڑے اور حالات کے جھکڑ نابود کرنے کی جتنی بھی کوششیں اور سازشیں کریں ناکام ہی رہتے ہیں۔ کئی کالجز و یونیورسٹیز میں اس تنظیم کے کارکنان کو فقط محفل دعا برپا کرنے کے جرم میں یا ایام محرم میں یوم حسین ؑ کا پروگرام کروانے کے جرم میں سخت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یہ بات طے ہے کہ اس کے کارکنان جو ایک نظم کے پابند ہوتے ہیں، کو کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ تشدد کے مقابلہ میں تشدد کی رہ اپنائیں۔ جس کے باعث کئی ایک تعلیمی اداروں کا ماحول اس کثافت و آلودگی سے بچ گیا ہے، جس کو کئی دیگر عناصر خراب کرکے اپنا الو سیدھا رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ اس تنظیم کا تعلق طلباء تنظیموں کے اتحاد متحدہ طلباء محاذ سے بھی گہرا ہے۔ ماضی میں اس کی صدارت بھی اس کاروان کے ایک مرکزی صدر سید ناصر عباس شیرازی کے پاس رہی ہے۔ اس محاذ میں آئی ایس او ایک فعال تنظیم کے طور پر موجود ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی اس محاذ کا ایک اہم اجلاس اس تنظیم کے مرکزی دفتر میں منعقد کیا گیا ہے۔ اسی محاذ کی بدولت یہ ممکن ہوا ہے کہ مختلف سطح پر ہونے والے باہمی جھگڑوں کو ختم کیا گیا اور کئی اہم ملکی و عالمی ایشوز پر مشترکہ موقف سامنے لایا گیا۔

اگرچہ موجودہ مضبوط پرائیویٹ تعلیمی نظام اور امتحانی درجہ بندی کے سسٹم کے باعث طلباء سیاست اور سرگرمیوں میں کافی کمی محسوس ہوتی ہے، مگر اس حوالے سے آئی ایس او یا کسی بھی دیگر نظریاتی طلباء تنظیم کیلئے یہ بات اس قدر پریشان کن نہیں ہے کہ طالبعلم ان کے پاس نہیں آ رہے اور ان میں نئی کھیپ کا اضافہ نہیں ہو رہا، نظریاتی تنظیموں کے نظریات اگر جامد نہ ہوں تو یہ فرق نہیں پڑتا، آئی ایس او پاکستان ان عالمی اسلامی تحریک
وں اور نہضتوں سے مربوط ہے، جنہیں امت مسلمہ کے نوجوان اپنے دل و دماغ میں بسائے ہوئے ہیں، بالخصوص فلسطین کی اسلامی تحریک، لبنان کی مزاحمت اسلامی، انقلاب اسلامی ایران اور مختلف اسلامی ممالک میں اسلام حقیقی کی ترویج و تبلیغ کیلئے کوشاں تحریکوں کی جدوجہد اس کے کارکنان کیلئے نظریاتی کشش کا باعث ہیں۔ دراصل اس تنظیم کا ماٹو ہے کہ مظلوم کی حمایت اور ظالموں سے نفرت کی جائے، جس پر عمل پیرا ہو کر ہی اس کے کارکنان عالمی دہشت گردوں، استعمار جہاں اور طاغوتی طاقتوں کیخلاف مسلسل برسر پیکار ہیں۔ ان ظالمین میں سب سے بڑا شیطان امریکہ ہے، جبکہ اس کا لے پالک اسرائیل بھی ہمیشہ اس تنظیم کا ہدف تنقید رہا ہے، جبکہ اس کے مقابل عالم اسلام کے اتحاد کیلئے اس تنظیم نے ہمیشہ امام خمینی و شہید الحسینی کے روشن و تابندہ، زندہ افکار کو عملی کرنے کی کوششیں کی ہیں۔

جب بھی کوئی تنظیم یا تحریک نظریاتی بنیادوں پر کام کرتی ہے تو اسے ان گنت و ان دیکھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک قدم اٹھاؤ تو دسیوں روڑے اور رکاوٹیں پہاڑ بن کر سامنے آجاتے ہیں، جیلیں، تشدد، کیسز، الزامات، لاٹھی چارج، گولیوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اپنے بہترین قائدین و کارکنان کی جانیں بھی پیش کرنا پڑتی ہیں، آئی ایس او پاکستان بھی ان مراحل سے گذر کر ہی بیالیس برس کا سفر طے کر آئی ہے، اس کی بنیادوں میں اس کے بانی ڈاکٹر محمد علی نقوی کا خون بھی شامل ہے، مرکزی نائب صدر ڈاکٹر قیصر عباس سیال، راجہ اقبال حسین، سید تنصیر حیدر، اعجاز حسین رسول نگری ایڈووکیٹ (گوجرانوالہ)، برادر اختر عباس و برادر ذوالقرنین (ڈی آئی خان) کے نام جان کی قربانیاں پیش کرنے والوں میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

اس تنظیم کی سب سے خاص اور اہم ترین منفرد بات اس کا بہترین دستور ہے، جس میں تمام عہدیداروں کی ذمہ داریوں کو واضح انداز میں درج کر دیا گیا ہے، جس میں ہر عہدہ کی مدت ایک سال متعین ہے، ایک طالبعلم تنظیم کو اپنے عہدیدار کیلئے یہ مدت اس حوالے سے ناکافی محسوس ہوتی ہے کہ جب ذمہ دار اپنی مسئولیت کے حوالے سے کچھ جانتا ہے تو اس کی مدت ختم ہونے کو آجاتی ہے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ کسی کو تنظیم پر قابض رہ کر خرابیاں پیدا کرنے کے مواقع کم ملتے ہیں، اگر کوئی ایسا طالبعلم کسی بھی طرح سے کسی بڑی ذمہ داری کیلئے منتخب بھی ہوجائے تو اسے ایک سال کے بعد فارغ ہوجانا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے تنظیم میں اسے خرابیاں پیدا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ چالیس سالہ سفر میں اگرچہ ایسے مواقع کئی ایک بار آئے، مگر تنظیمی نظم و نسق اور دستوری گرفت نے ان پر بے حد خوبصورتی سے قابو پایا ہے۔

امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے اپنے کارکنان کی تنظیمی، فکری، دینی، روحانی، جسمانی اور تعلیمی تربیت کیلئے مختلف شعبہ جات قائم کئے ہوئے ہیں، جو مسلسل اپنے طے شدہ پروگراموں کو رو بہ عمل رکھتے ہیں، ان مقاصد کیلئے متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی خدمات لی جاتی ہیں، جن میں علماء، ماہرین تعلیم، اسکاؤٹ کمانڈرز اور دانشور شامل ہوتے ہیں۔ تربیتی مقاصد کیلئے ہفتہ، پندرہ روزہ اور ماہانہ بنیادوں پر پروگرام ہوتے ہیں، جن میں طلباء کی تعلیمی سطح اور اہلیت کو سامنے رکھ کر گروہ بندی کی جاتی ہے۔ تربیتی مراحل کا سلسلہ محبین (سکول) کی سطح سے شرو ع ہوتا ہے، اسی طرح شعبہ اسکاؤٹنگ بھی تربیتی مقاصد کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے، جس میں اسکاؤٹنگ اور جسمانی فٹنس کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ سال ہا سال سے جاری ہے۔ اس بیالیس سالہ سفر میں بلاشبہ لاکھوں طالبعلم ان مراحل سے گذر کے اپنی عملی زندگی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

بہرحال اس کاروان الہٰی نے اپنے بیالس سالہ سفر میں جتنے بھی کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں اور ملک و ملت نیز امت اسلامی کی جتنی بھی خدمت کی ہے اس کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا، نہ ہی ان کی خدمات کا سہرا کسی اور کے سر پہ باندھا جاسکتا ہے۔ ہم اس موقعہ پر اس کے قائدین، کارکنان اور وابستگان و ہمدردان سے یہ توقع رکھیں گے کہ اپنے اس سفر کو جاری رکھتے ہوئے کہیں کہیں رک کر اپنی رفتار و کردار کا جائزہ و احتساب بھی ضرور کر لیا کریں، احتساب شخصی کے بغیر انسان فکری و روحانی مراحل میں رشد نہیں پاسکتا۔ یوم تاسیس ہمیشہ احتساب اور جائزے کا دن ہونا چاہیئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button