اوریا مقبول کے پسندیدہ طالبان کی امریکا پالیسی
تحریر: عرفان علی
معروف پاکستانی سفارتکار افتخار مرشد نے طالبان دور حکومت کے افغانستان پر ایک کتاب لکھی جو 2006ء میں شایع ہوئی، جس میں ایران کی طالبان پالیسی پر بھی تنقید کی گئی ہے یعنی وہ کوئی ایسے سفارتکار نہیں کہ جنہیں ایران کا حامی قرار دے کر مسترد کر دیا جائے۔ انہیں بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد نگران حکومت نے پہلے ہی دن پاکستان کے دفتر خارجہ کا ایڈیشنل سیکرٹری مقرر کر دیا تھا۔ 1996ء تا2000ء وہ افغان امور میں پاکستان حکومت کے نمائندہ خصوصی رہے اور طالبان حکومت سے ان کا براہ راست رابطہ رہا۔ طالبان حکومت کے سرکردہ افراد ان کی آؤ بھگت کیا کرتے تھے۔ Afghanistan: The Taliban Years کے آخری باب بعنوان ’’اسلام اور طالبان‘‘میں انہوں نے لکھا کہ ایک حقیقت جو بہت کم لوگ جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ طالبان کا امیر ملا عمر ’’ملا‘‘ بننے کی اہلیت کا حامل بھی نہیں تھا کیونکہ وہ (کسی بھی مذہبی ادارے سے) دینی تعلیمات میں فارغ التحصیل نہیں تھا۔ مزید یہ کہ تحریک طالبان نسبتاً زیادہ معتدل ملا ربانی نے شروع کی تھی اور ملا غوث بھی اس کے ساتھ تھا، لیکن ملا عمر کو سربراہ بنانے کی سادہ سی وجہ یہ تھی کہ اس کا قبیلہ زیادہ بڑا اور زیادہ بااثر تھا۔
مزید لکھا کہ غیر تعلیم یافتہ و نیم خواندہ طالبان کبھی بھی دین کی حقیقی روح کو نہیں پاسکتے تھے اور انہیں یہ آئیڈیا ہی نہیں تھا کہ حکومت کیسے چلائی جاتی ہے۔ وہ عام افغانیوں کو دین کے نام پر سزا دیتے تھے اور اپنی قبائلی اقدار کو افغان عوام پر مسلط کرتے تھے کہ جن جاہلوں کو اپنے ان حقوق کا ہی علم نہیں تھا جو قرآن شریف میں تحریر ہیں۔ امر بالمعروف کے نام پر نازی جرمنی کے گسٹاپو کی طرح کا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ حتٰی کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانہ کے اراکین اور قندھار میں پاکستانی قونصلر جنرل کو بھی نہیں بخشا گیا۔ محض ڈاڑھی کی لمبائی کم ہونے کے ’’جرم‘‘ میں کئی مرتبہ پاکستانی سفارتی عملے کو گرفتار کرکے تھانوں میں لے جایا گیا۔ (یہ تھے اسلام اور پاکستان کے نام نہاد دوست جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا!)۔
جس ملا ربانی کو نسبتاً معتدل لکھا، اسی کا ایک واقعہ چوتھے باب ’’سیاسی حل کی تلاش‘‘ میں لکھا، جو 1997-98ء کے دوران کی سفارتی سرگرمیوں کے بارے میں تھا۔ افتخار مرشد نے ملا ربانی سے کہا کہ ’’نجیب اللہ کے قتل اور لاش کی بے حرمتی اور دیگر بربریت کے باوجود امریکا سمیت پوری دنیا 27 ستمبر 1996ء میں کابل پر طالبان کے ٹیک اوور کے بعد انہیں تسلیم کرنے والی تھی، لیکن خواتین کے ساتھ ان کے غیر انسانی سلوک کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔ خواتین کے بارے میں ان کی پالیسی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔‘‘ ملا ربانی کا جواب یہ تھا کہ خواتین کی تعلیم و روزگار کے بارے میں بحیثیت مسلمان وہ بھی یہی سمجھتے ہیں لیکن یہ سب کچھ افغان روایات کے مطابق ہونی چاہئیں۔(ملاحظہ فرمایئے کہ اسلام میں اجازت ہونے کے باوجود طالبان قبائلی روایات کے تابعدار تھے!)۔
طالبان اور امریکا کے مابین تعلقات کے بارے میں اس افتخار مرشد نے بہت سے واقعات نقل کئے ہیں۔ باب دوم میں لکھتے ہیں کہ طالبان کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ بین الاقوامی سطح پر وہ تنہا ہوچکے ہیں اور صرف پاکستان یا پھر کسی حد تک امریکا، طالبان کی طرف سے بات کرتا ہے۔ چوتھے باب میں امریکی سفارتکار بل رچرڈ سن کا تذکرہ ہے، جو اس وقت اقوام متحدہ میں امریکا کا مستقل مندوب تھا اور بعد ازاں امریکا کا وزیر توانائی بنا۔ اس نے اسلام آباد کے دورہ سے قبل طالبان کے بارے میں امریکی مطالبات پر مبنی وش لسٹ پیش کی تھی، جس میں سیاسی و معاشرتی حوالوں سے طالبان کو امریکا کی خواہشات کے مطابق اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ طالبان نے ان میں سے 90 فیصد باتیں مان لیں اور اسی قبولیت کو بل رچرڈسن نے دورہ پاکستان و افغانستان کی کامیابی قرار دیا تھا۔
چوتھے باب ہی میں تحریر ہے کہ حکیم مجاہد نے اقوام متحدہ کے افغان مشن اور او آئی سی کو جو خط بھیجا، اس میں اسکے نائب (یعنی طالبان کے نائب وزیر خارجہ) ملا سید محد حقانی کے پیغام کا متن بھی نقل کیا گیا تھا، جس میں حقانی نے تصدیق کی تھی کہ طالبان اور بل رچرڈ سن میں سمجھوتہ ہوچکا تھا۔ بعد ازاں امریکی سفیر تھامس سائمنز نے وزیراعظم نواز شریف کو بل رچرڈ سن کا خط دیا، جس میں لکھا تھا کہ پاکستان اور امریکا کا ساتھ مل کر کام کرنا انتہائی کامیاب رہا اور گریٹ ڈیل حاصل کرلی گئی۔ پاکستان کے نزدیک سمندری حدود میں موجود امریکی بحری بیڑے سے افغانستان میں میزائل حملہ کیا گیا جو پاکستان کی فضائی و سمندری حدود کی خلاف ورزی تھی۔ اس تناظر میں پانچویں باب بعنوان شمالی اتحاد کا سقوط میں چند اہم واقعات درج ہیں۔ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ کے چارج ڈی افیئرز ایلن ایسٹھم جسے دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا گیا تھا، نے بعد میں نواز حکومت کو بتایا کہ امریکی حکومت اور طالبان میں رابطہ ہے۔ افغانستان کے اسلام آباد میں چارج ڈی افیئرز ملا سعید رحمان حقانی کو امریکی سفارتخانے نے تفصیلی نوٹ دیا، جس میں یہ یقین دہانی تھی کہ امریکا کو طالبان سے کوئی پرابلم نہیں۔ لکھا گیا کہ یہ حملہ طالبان پر نہیں تھا بلکہ دہشت گردوں کے خلاف تھا جس میں سر فہرست اسامہ بن لادن تھا۔! (خامہ انگشت بہ دنداں ہے اسے کیا لکھئے!)
چھٹے باب میں ان ممالک کا علیحدہ علیحدہ تذکرہ ہے جو افغان ایشو میں دلچسپی لے رہے تھے۔ امری
کا اور طالبان تعلقات کے بارے میں لکھا ہے کہ نومبر 1996ء میں اقوام متحدہ کی افغان کانفرنس میں امریکا کے نمائندہ وفد نے طالبان کے حق میں واضح موقف اختیار کیا۔ نومبر کے آخر میں مذکورہ کانفرنس میں شریک امریکی حکومت کی اعلٰی شخصیت نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب (سفیر) کو نیویارک میں فون کیا اور اطلاع دی کہ ’’امریکی دفتر خارجہ کو ملا غوث کا ایک خط موصول ہوا ہے جو شیرینی سے لبریز ہے اور انتہائی اچھی انگریزی میں لکھا گیا ہے۔‘‘ افتخار مرشد نے مزید لکھا کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ کے ڈپٹی چیف آف مشن نے 1997ء میں مزار شریف میں برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود اور رشید دوستم سے ملاقاتیں کیں اور انہیں کہا کہ ( طالبان کے) متوازی (علیحدہ) حکومت نہ بنائیں۔
اسی کتاب کے آخر میں طالبان کے سربراہ ملا عمر کے اس خط کا متن ہے جو 6 ستمبر 1999ء کو ’’ہز ایکسی لینسی‘‘ بل کلنٹن کے نام تحریر کیا گیا تھا۔ ملا عمر امریکی صدر بل کلنٹن کو یقین دلا رہے تھے کہ ’’ہم جو کوئی بھی ہوں، تم سے بہت دور ہیں اور ہمارا تمہیں نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں، اور ہم تمہیں کوئی نقصان پہنچا بھی نہیں سکتے۔‘‘ ملا عمر نے خط میں بل کلنٹن سے کہا کہ طالبان کے طرز عمل کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں دیکھے۔ (بے چارے بل کلنٹن کو تو مسیحیت کی تعلیمات یاد نہیں تھیں اور وہ مونیکا لیونسکی کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہے تھے جبکہ بامیان کے ہزارہ شیعہ مسلمان اور مزار شریف کے ازبک سنی اور شیعہ طالبان کے’’ اسلامی‘‘ اصولوں کے تحت قتل کئے جا رہے تھے یا غلام بنائے جا رہے تھے)۔ اس خط میں ملا عمر نے جو سب سے زیادہ اہم حقیقت پیش کی وہ اس کا آخری پیراگراف تھا۔
ملا عمر کے الفاظ یہ تھے: \\”Furthermore, if we are overthrown, Afghanistan will be used by Iran. And Iran is such a harmful terrorist nation that there is no other nation like it in the world. As it is, despite what you think, even now, we have posed no problem for you as has Iran.\\”، وہ بل کلنٹن سے شکوہ فرما رہے تھے کہ اگر طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے تو پھر افغانستان، ایران کے ہاتھوں استعمال ہوگا اور ایران ایک ایسی خطرناک دہشت گرد قوم (ملک) ہے کہ دنیا میں ان جیسی دوسری کوئی قوم نہیں۔ جیسا کہ یہ (صورتحال) ہے، باوجود اس کے کہ آپ (یعنی امریکی صدر) کچھ بھی سوچیں۔ ہم تو اب بھی آپ کے لئے کوئی پرابلم (یعنی مشکل کھڑی کرنے والے) نہیں ہیں، (لیکن) ایران (امریکا کے لئے ایک مسئلہ یا مشکل ضرور) ہے۔
افتخار مرشد نے بہت سے راز فاش نہیں کئے۔ مثال کے طور پر امریکی سینیٹر ہینک براؤن کی میزبانی میں طالبان کا دورہ امریکا اور امریکی اسکالر سیلگ ہیریسن کا انکشاف کہ طالبان امریکا کی ایجاد تھے اور یہ راز بھی کہ پاکستان کے بعض دیوبندی علماء کو برطانوی ہائی کمیشن (یعنی سفارتخانہ) کی جانب سے طالبان بنانے پر مامور کیا گیا تھا اور رقوم بھی ادا کی گئی تھیں۔ تنقید کے باوجود افتخار مرشد نے چھٹے باب Interested Countries میں ایران کی افغان پالیسی کو واضح اور واقعی سلامتی اور قومی مفاد کی بنیاد پر مبنی قرار دیا اور امریکا، ایران تعلقات کے بارے میں اہم ترین جملہ لکھا کہ: Relentless pressure on the Islamic Republic by the United States, which climaxed in the composition of a trade and investment embargo on 30 April 1995 and the appropriation of a secret fund for operations against Iran, heightened Tehran\\\’s fears. یعنی امریکا کی جانب سے لگاتار دباؤ 30اپریل 1995ء کو اس قت اپنے عروج پر پہنچا جب امریکا نے ایران کے ساتھ تجارت و سرمایہ کاری پر پابندیا لگا دیں، اور ایران کے خلاف خفیہ فنڈز مختص کر دیئے۔
ایک جانب طالبان، امریکا کے درمیان شیرینی سے بھرپور لب و لہجہ پر مبنی تعلقات تھے تو دوسری جانب ایران کے ساتھ امریکا کا یہ رویہ تھا۔ تحریر طویل ہوچکی، صرف یہ حقیقت عرض کر دوں کہ کلنٹن کے بعد صدر جارج بش دوم کی 2 قسطوں میں 8 سالہ حکومت کے دوران ایران کے خلاف امریکی اقدامات کی تفصیلات امریکی حکومتی عہدیدار کونڈو لیزارائس کی کتاب نو ہائیر آنر میں پڑھ لیں اور جنوری 2009ء سے اب تک کی اوبامہ حکومت کے دوران ایران کے خلاف جاری امریکی سازشوں کی داستان اس دور کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی کتاب ہارڈ چوائسز میں پڑھ لیں۔ ان تین کتابوں میں درج حقائق کی روشنی میں اوریا مقبول جان کے جھوٹے مفروضوں کا موازنہ کرلیں کہ اس خطے میں طالبان سمیت امریکا کا اصل پولیس مین کب کب، کون کون رہا ہے؟ اور کس، کس سے امریکی حکومت کا معاشقہ اب تک برقرار ہے!