مضامین

محسود قبیلے کی علیحدگی، طالبان اور ملا فضل اللہ کوشدید دھچکا (خصوصی رپورٹ)

محسود طالبان گروپ نے کالعدم تحریک طالبان سے علیحدگی کا اعلان کر دیا، نیا گروپ خالد محسود سجنا کی قیادت میں کام کرے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق نیا گروپ حکومت سے امن سمجھوتہ کر سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق یکم نومبر 2013ء کو امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سے طالبان کو اندرونی اختلافات کا سامنا رہا تھا۔ ملا فضل اللہ کی جانب سے 14مئی کو خان سید سجنا کو جنوبی وزیرستان طالبان کے امیر کی حیثیت سے یکطرفہ طور پر برطرفی کے بعد محسود گروپ نے ٹی ٹی پی سے خود کو علیحدہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ فضل اللہ نے یہ انتہائی اقدام سجنا اور شہریار خان عرف شہباز کے طالبان دھڑوں میں خونریز تصادم کے بعد اٹھایا، لیکن طالبان کی مرکزی شوریٰ نے ملا فضل اللہ کے فیصلے کی توثیق سے انکار کر دیا تھا۔ 

شوریٰ ارکان کی اکثریت کا تاثر ہے کہ ملا فضل اللہ، بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کی طرح طالبان کے امور چلانے کے قابل نہیں۔ شوریٰ ارکان نے فضل اللہ کے فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ اس سے دھڑے بنیں گے اور 28مئی کو یہ بات درست ثابت ہو گئی جب شوریٰ کے رکن اور طالبان ترجمان اعظم طارق نے پریس کانفرنس میں اپنے امیر خالد خان محسود عرف سجنا کی قیادت میں محسود گروپ کے قیام کا اعلان کیا۔ مرکزی قیادت سے ناخوش اعظم طارق کے مطابق فیصلہ انتہائی غوروخوض کے بعد کیا گیا ہے۔ 

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی ڈرون حملوں میں سب سے زیادہ نقصان محسود قبائل کو اٹھانا پڑا تھا۔ لہٰذا اب وہ خان سید سجنا کی قیادت میں حکومت سے امن سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں۔ درحقیقت حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد سجنا قیادت کی دوڑ میں سب سے آگے تھے۔ انہوں نے پہلے ہی دن ملا فضل اللہ کی قیادت کو چیلنج کر دیا تھا۔ تاہم ملا محمد عمر کے کہنے پر ایک غیر محسود کو امیر بنایا گیا۔ جبکہ ملا فضل اللہ نے خان سید سجنا کے حریف شہریار محسود کو اہمیت دینا شروع کر دی، جس نے سجنا کے حامی 12 محسود قبائلیوں کو معطل کر دیا۔ 

دیگر طالبان کمانڈروں کی طرح خان سید سجنا افغانستان میں امریکیوں کے خلاف لڑتے رہے، سجنا اپنے لیڈر ولی الرحمان کی طرح حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے حامی رہے ہیں تاہم مذاکرات مخالف حکیم اللہ محسود نے اگست 2013ء میں اپنے ڈرائیور لطیف محسود کو طالبان کے نائب امیر کے ساتھ ساتھ میران شاہ کی کمان بھی سونپ دی، جس پر سجنا نے اپنا متوازی نظام قائم کر لیا۔ وہ حکیم اللہ محسود کی جانب سے ہٹائے جانے کے باوجود طالبان کا حصہ رہے۔ اپنے حلقے کو نہ صرف مستحکم کیا بلکہ شمالی وزیرستان کے 12 محسود قبائل کے سرداروں کی حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button