شہیدشیخ نمر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کرن قتل ہوئی شعلہ خورشید بنی
تحریر: سید محمد علی شاہ الحسینی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) سادہ لوحی کی بھی انتہا ہوتی ہے، ہمارے ہاں کے سادہ لوح پاکستانی خادمین حرمین شریفین کا نام دے کر سعودی بادشاہوں کو خلیفۃ اللہ کہہ رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں کے خود غرض اور سعودی نمک خوار سعودی بادشاہوں کی اتباع کو دینِ اسلام کہہ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی حکمرانوں کا ایجنڈا ہر ممکنہ طریقے سے اسرائیل کے بچاؤ اور امریکہ کے اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ سعودی حکمرانوں کو اللہ، اولیائے اللہ اور دینِ اسلام سے کوئی ہمدردی نہیں، انہیں کسی مسلمان، کسی ولی خدا اور کسی اسلامی مسلک پر کبھی رحم نہیں آتا۔ ان کی ساری ہمدردیاں یہودیوں، عیسائیوں اور کفار سے وابستہ ہیں۔ شاید آپ کو تعجب ہو رہا ہو یا آپ مجھے ایک متعصب شخص سمجھ رہے ہوں، لیکن اس میں تعجب یا تعصب کی کوئی بات ہی نہیں۔ آپ خود سے تحقیق کرکے دیکھ لیں۔ ایک قاعدہ ہے "کل شیئ یرجع الی اصلہ” ہر چیز اس کی اپنی اصل کی طرف پلٹتی ہے۔ آل سعود کی اصل یہودیت ہے اور موجودہ آل سعود کے آباو اجداد کا تعلق خیبر کے یہودی قبیلے عنزہ یا ہمان سے ہے۔(1) اور قرآن مجید بھی یہود کو مسلمانوں کا ابدی دشمن قرارد ے رہا ہے۔(2) یہ لوگ کبھی مسلمانوں کا خیرخواہ قرار پانہیں سکتے۔ آج کل عالم اسلام کو جتنی مشکلات کا سامنا ہے، ان سب کی بازگشت سعودی حکومت کی طرف پلٹتی ہے۔ نائجیریا میں سینکڑوں افراد کے قتل کا مسئلہ ہو یا یمن میں آٹھ ہزار سے زائد بے گناہ مسلمان شہریوں کا کشت و خوں، شام میں لاکھوں مسلمان بے گھر اور کسمپرسی کے عالم میں ہونے کا مسئلہ ہو یا امریکہ اور اسرائیل کی سربراہی میں وہاں ہزاروں لوگوں کے قتل عام کا مسئلہ، ایران پر امریکی پابندیوں کا مسئلہ ہو یا بحرین میں آل خلیفہ کے مظالم کا معاملہ، غرض مسلمانوں کی تمام مشکلات کا سرچشمہ آل سعود ہی ہے۔ نہ سعودی عرب میں مذہبی آزادی ہے، نہ فکری آزادی، نہ حکومتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ہے اور نہ اپنے حق کا دفاع کرنے کی قدرت۔ جس کا واضح ثبوت کل ہی آیت اللہ باقرالنمر کو بے دردی سے شہید کرنا ہے۔ اسلام تو مذہبی آزادی کا حکم دیتا ہے۔(3) فکری آزادی کی دعوت دیتا ہے(4) نہ ظلم کرنے کا حکم دیتا ہے اور نہ ہی ظلم سہنے کا۔(5)
مومنو! ناامید نہ ہونا، چراغ امید کو اپنے دلوں میں روشن رکھنا، دشمنوں کے مظالم سے مرعوب نہ ہونا، کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جو تاریخ میں بہت سارے نشیب و فراز کا مشاہدہ کرتے آئی ہے۔ دشمن تو ابتداء تاریخ میں ہی ہمیں محو کرنا چاہتے تھے اور ابھی تک اپنے ان ناپاک عزائم پر تلے ہوئے ہیں۔ نام نہاد مسلمانوں نے تو سقیفے سے ہی ولایت کے نور کو بجھانے کی کوشش کی اور خلافت کو ملوکیت میں بدلنے کی نئی بدعت قائم کر دی، پھر مرور زمان کے ساتھ ساتھ کربلا کی سرزمین پر چراغ ہدایت کو گل کرنے اور ظلمت کو ہمیشہ کے لئے سایہ فگن کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور وہ اپنے اس زعم باطل میں مگن ہوگئے تھے کہ اس کے بعد کبھی ہدایت کا چراغ روشن نہیں ہوگا، لیکن انھیں کہاں معلوم تھا کہ امام سجاد ؑ اور ثانی زہراء حضرت زینبؑ حیدری اور حسینی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ کے لئے اس چراغ ہدایت کو گل نہیں ہونے دیں گے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور قیام قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ البتہ یاد رکھنا کہ آخر کار فتح ہماری ہی ہوگی اور بشریت کو ان ظالموں کے چنگل سے نجات دینے والا ہمارا ہی امام ہوگا، کیونکہ قرآن کا وعدہ ہے کہ میرے صالح بندے ہی اس زمین کے جانشین ہوں گے۔ اس دنیا کی چند روزہ زندگی میں اللہ تعالٰی ان ظالموں کو مختصر مدت کے لئے ڈھیل دیتا ہے، تاکہ ان کو ابدی ہلاکت میں مبتلا کرئے۔(6)
اب تو سلب آزادی کی انتہا ہوگئی اور شہید آیت اللہ باقر النمر کو مظلومانہ شہید کیا گیا۔ نہ انھوں نے کسی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا، نہ کسی مسلمان کے خون کو حلال کیا، نہ کسی کی ناموس کی توہین کی، نہ حکومت کے خلاف کوئی بغاوت کی، نہ کسی کا حق غصب کیا، نہ کسی کی توہین کی، نہ کسی دہشتگردی کے واقعے میں ملوث ہوئے، نہ کسی کی "برین واش” کرکے اسے خودکش دھماکے پر وادار کیا، نہ بے گناہ انسانوں کے قتل کو جہاد کا نام دیا، نہ جہاد النکاح کے ذریعے کسی کی ماں بہن کو دوسروں کے لئے جائز التصرف قرارد یا، نہ کسی کے حق پر شب خوں مارا، نہ کسی دہشتگرد تنظیم کی سرکردگی کی، نہ کسی وہابی مسجد میں دھماکہ کرایا، نہ کسی دہشتگرد کے ساتھ تعاون….پھر انہیں کس جرم میں شہید کیا گیا؟ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ معارف اہل بیت علیھم السلام کا پرچار کرتے تھے، اسلام کے حقیقی اصولوں سے لوگوں کو روشناس کراتے تھے، اسلام کا صحیح چہرہ لوگوں کے سامنے عیاں کرتے تھے، لوگوں کو ان کے شہری حقوق سے محرومی کا احساس دلاتے تھے، حکومت کی شہریوں کے درمیان تبعیض کی مخالفت کرتے تھے اور اجتماعی عدالت کے نہ ہونے کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔(6) کیا کسی شہری کا اپنے شہری اور مذہبی حقوق کے لئے صدائے احتجاج بلند کرنا دہشتگردی ہے؟ کیا ظالم حکومت آل سعود کے مظالم کا پردہ چاک کرنا اولی الامر کی مخالفت شمار ہوتا ہے؟ کیا شرابی، کبابی اور حرم سرا میں عیش و نوش میں مصروف رہنے والے ایسے حکمران اولی الامر کا مصداق قرار پاسکتے ہیں؟ کیا لوگوں کے درمیان اجتماعی شعور بیدار کرنا جرم ہے؟ ….
شاید آل سعود یہ گمان کرتے ہوں کہ ایک یا چند نمر کو شہید کرنے سے شیعہ کمزور ہوجائیں گے، ان کے خلاف آوا
ز نہیں اٹھائیں گے، ساکت ہوکر ان کے تمام مظالم پر سسکیاں لیتے ہوئے مظلومانہ زندگی گزاریں گے،ان کی ظالمانہ حکومت کے خلاف سعودی عرب اور دنیا کے گوش و کنار میں بے حس تماشائی بنے رہیں گے۔ اگر تمہاری یہ سوچ ہے تو یہ تمہاری بھول ہے؟ تشیع وہ ملت ہے، جس نے ابتدا تاریخ سے ہی حزب اختلاف میں رہنے کے باوجود اپنا تشخص نہیں کھویا، کبھی کسی کی غلامی کو قبول نہیں کیا، کبھی کسی کے ظلم پر خاموش نہیں رہے، کبھی دنیا کے کسی بھی ملک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر سکوت اختیار نہیں کیا، کبھی کسی امریکہ یا اسرائیل جیسے استعمار کے پنجے میں آکر ان کا آلہ کار نہیں بنی۔ کیوں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا سبب کیا ہے؟ میری نظر میں اس کا واحد سبب ہمارا کربلا سے متمسک ہونا ہے۔ ہم بادشاہ حریت ابا عبداللہ الحسین ؑ کو اپنا آقا و مولی مانتے ہیں اور انھیں اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں۔ جس نے کربلا کے تپتے صحرا میں ہمیں یہ درس دیا ہے کہ "ذلت ہم سے بہت ہی دور ہے”(7) ظالموں کی ہمراہی میں زندگی گزارنے کے مقابلے میں عزت کی موت سعادت ہے۔”(8)
ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر چند روز تم اپنی حکومت و اقتدار کے نشے میں مست رہ کر دوسرے مسلمانوں بالخصوص علماء حقہ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے رہو، لیکن یاد رکھو وہ وقت دور نہیں کہ جہاں امام حسینؑ نے بہتر افراد کے ساتھ ہزاروں سے جنگ کرکے ان کے دشمنوں کو قیامت تک آنے والوں کے لئے نشان عبرت بنا دیا، وہاں ان بے گناہ شہیدوں کا خون بھی عنقریب رنگ لائے گا اور تمہارے ایوان اقتدار میں لرزہ طاری کرے گا اور تمہاری بھی وہ حالت ہوجائے گی، جو حال ہی میں دوسرے ظالم و جابر حکمرانوں کی ہوئی ہے۔ ہم تم سے صرف اتنا ہی کہیں گے کہ:
ہم صلیبوں پہ چڑھے زندہ گھڑے پھر بھی بڑھے
وادی مرگ بھی منزل گہہ امید بھی
ہاتھ کٹتے رہے پھر مشعلیں تابندہ رہیں
رسم جو ہم سے چلی باعث تقلید بنی
شب کے سفاک خداؤں کو خبر ہوکہ نہ ہو
جو کرن قتل ہوئی شعلہ خورشید بنی
فہرست منابع:
1۔ parsin.com news
2۔ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَ النَّصارى أَوْلِياءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِياءُ بَعْضٍ وَ مَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمينَ (مائده/51) اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا حامی نہ بناؤ، یہ لوگ آپس میں حامی ضرور ہیں اور تم میں سے جو انہیں حامی بناتا ہے، وہ یقیناً انہی میں سے ہے، بے شک اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا۔
3۔ البقرة: 256 لا إِكْراهَ فِي الدِّينِ…. دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں۔
4۔ محمد: 24 أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلى قُلُوبٍ أَقْفالُها، کیا لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے لگ گئے ہیں؟
5۔ البقرة: 279 …لا تَظْلِمُونَ وَ لا تُظْلَمُونَ نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔
6۔ النور: 55 وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَني لا يُشْرِكُونَ بي شَيْئاً وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفاسِقُونَ۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں، اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا، جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لئے پسندیدہ بنایا ہے، اسے پائیدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے، پس وہی فاسق ہیں۔
إبراهيم: 42 وَ لا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلاً عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فيهِ الْأَبْصارُ اور ظالم جو کچھ کر رہے ہیں، آپ اس سے اللہ کو غافل تصور نہ کریں، اللہ نے بے شک انہیں اس دن تک مہلت دے رکھی ہے، جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
7۔ سفينة البحار / ج3 / 212 / ذلل: ….. ص : 212: هيهات منّا الذلّة يأبى اللّه ذلك لنا و رسوله و المؤمنون … الخ۔
8۔ تحف العقول/النص/ 245 /وَ قَالَ ع فِي مَسِيرِهِ إِلَى كَرْبَلَاءَ …..فَإِنِّي لَا أَرَى الْمَوْتَ إِلَّا سَعَادَةً وَ لَا الْحَيَاةَ مَعَ الظَّالِمِينَ إِلَّا بَرَماً