دینی طبقات افراط و تفریط سے پرھیز کریں، علامہ صادق تقوی
شیعہ نیوز (کراچی) علامہ صادق تقوی نے 16 شعبان کو کراچی میں مدارس امامیہ کی جانب سے منعقدہ سمینار میں عصر غیبت میں منتظرین کے وظائف کے عنوان سے خطاب کرتے ھوئے کہا کہ مھدوی معاشرہ ایک علم دوست معاشرہ ھے۔ ایسے معاشرے میں علم کو پروان چڑھانے کیلئے ایک عملی نظریے کو علمی نگاہ و حیثیت سے دیکھنے اور علمی تنقید کرنے کی ضرورت ھوتی ھے۔ جب جاھل افراد اپنی من مانی کریں اور بغیر علم کے جب اپنی رائے کا اظہار کرنے لگیں تو وہاں علمی گفتگو نہیں ہو سکتی۔
مہدوی معاشرے کے قیام کیلئے ضروری ھے کہ علمی نظریات کو دلائل و استدلال سےبیان کیا جائے۔ مہدوی معاشرے کی ایک نشانی یہ ھے کہ وہ دلیل سے گفتگو کرتے ہیں اور دوسرے نظریات کا احترام کرتے ہیں۔
آج ھم اپنے معاشرے میں افراط و تفریط کو عروج پر دیکھ رھے ھیں اور یہ افراط و تفریط دین کے نام ہر انقلابی طبقات میں جاری ھے ۔
علما کو مداری اور دین فروش کہہ کر علما کی توھین کرنے والے بھی غلطی کا شکار ھے اور اسلامی اخلاقیات سے تجاوز کرتے ہوئے علما کے خلاف غیر مھذب زبان استعمال کر رھے ہیں اور دوسری جانب رھبر کے بیانات کی من مانی تشریح کرنے والے بھی غلطی کا شکا ر ہیں۔
ان میں سے کوئی بھی ھمارا اصلی دشمن نہیں ھے، اصل دشمن کو فراموش نہ کریں، دیکھنے میں آتا ھے کہ لوگ فرعی و ثانوی مسائل پر دو دو گھنٹے کی تقریریں کردیتے ہیں اور اصل مقصد کو فراموش کر دیتے ہیں۔
میں دونوں طرف یہ کہتا ہوں کہ یہ تند مزاجی چھوڑیں اور اعتدال و دلائل کی گفتگو سے بات کریں۔ کون کیا کہتا ھے اور کیسی تشریح کرتا ھے، یہ چھوڑ کر رھبر عالی قدر کے نمائندے کے پاس جائیے اور ان سے پوچھیں کہ رھبر کی فلاں بات کا کیا مقصد و مطلب ھے؟ الحمد للہ ھمارے درمیان نمائندہ رھبر موجود ھے، اب صاف علم ہو جائے گاکہ کون رھبر کی بات سننے والا اور کون ان کا مخالف ھے!!
مہدوی معاشرے کی علامت یہی ہے کہ باہمی محبت و یگانت کے ساتھ مل جل کرمعاشرے کی تربیت کا کام کرتے ہیں