یوم القدس تاریخی پس منظر
بشکریہ : علی شہزاد
شیعہ نیوز: یوم القدس رمضان المبارک کا آخری جمعہ ہے جو ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے صرف چند ہی مہینے بعد 13 رمضان المبارک سنہ 1399 کو حضرت امام خمینی کی طرف سے فلسطینی قوم کی حمایت کے لئے رکھا گیا ہے. اس دن میں نماز جمعہ کو ادا کرنے سے پہلے فلسطین پر قبضہ اور اس کی عوام پر ظلم کے خلاف اعتراض میں مظاہرے کیے جاتے ہیں اور آخر میں نماز جمعہ کو ادا کرنے کے لئے لوگ مصلی اور مساجد میں حاضر ہوتے ہیں. بعض ممالک میں جمعہ کے دن پولیس کی عدم اجازت کی وجہ سے کسی دوسرے دن یہ مظاہرے کیے جاتے ہیں یا مظاہرے کی بجائے صرف ایک نشست اور اجلاس کی اجازت دی جاتی ہے.
کیونکہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ مختلف ممالک میں مختلف بھی ہو سکتا ہے، اگر ایران میں رمضان المبارک کا آخری دن جمعہ یا ہفتہ کا دن ہو تو عام طور پر یوم القدس ایک ہفتہ پہلے منایا جاتا ہے تا کہ دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ یکسانیت پیدا کی جا سکے.
یوم القدس مسلمانوں کی بیداری اور اپنے دشمنوں کے سامنے آپسی اتحاد کا دن ہوتا ہے اور یہ قدس یا فلسطین سے مختص نہیں ہے.
تاریخچہ
1948 سے جب فلسطین پر قبضہ کیا گیا، یہ مسئلہ ابتدا سے ہی اکثر دینی علماء اور خاص طور پر شیعہ علماء کے مد نظر رہا ہے اور بہت ہی حساسیت کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کے در پے رہے ہیں. خود فلسطینیوں نے جب جنگ کرامہ میں صہیونیوں پر کامیابی حاصل کی تھی، اکتوبر میں کسی ایک دن کو یوم فلسطین کے طور پر مطرح کیا تھا لیکن اس کو خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی.حضرت امام خمینی نے اپنے تمام مبارزات و جد و جہد کی ابتدا میں سے ہی فلسطین کی آزادی اور اس پر قبضے کو ناجائز قرار دیا. ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اسرائیل کے ساتھ رابطہ منقطع کرتے ہوئے اس کی سفارت کو فلسطینیوں کے حوالے کیا گیا. جب اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملے کیے تو حضرت امام خمینی نے تیرہ رمضان المبارک سنہ 1399 ھجری قمری کو درج ذیل پیغام کے ذریعے رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کے طور پر اعلان فرمایا
:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں نے عرصہ دراز سے، تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے کی طرف متوجہ کیا ہے، جس نے ان دنوں میں ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں پر حملات کو شدید کر دیا ہے، اور خاص طور پر جنوبی لبنان میں فلسطینی مجاہدین کے خاتمے کے لئے، مسلسل ان کے گھروں پر بمباری کر رہا ہے.
میں پورے عالم اسلام کے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کے دن جو ایام قدر میں سے بھی ہے، اور فلسطینی عوام کی تقدیر کو واضح کرنے کا دن بھی ہو سکتا ہے، اس کو "یوم القدس” کے عنوان سے منتخب کرتے ہوئے، کسی پروگرام کے ذریعے بین الاقوامی طور پر ان مسلمان عوام کے ساتھ تمام مسلمانوں کی ہمدردی کو اعلان کریں. اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ مسلمانوں کو اہل کفر پر کامیابی عطا فرمائے.
وقت کے عبوری وزیر امور خارجہ ابراہیم یزدی کا دعوی ہے کہ کلینڈر میں ایک دن کو یوم القدس کے طور پر مقرر کرنے کی تجویز ان کی طرف سے دی گئی تھی
یوم القدس کا اہتمام
80 اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں اس دن کو مظاہرے ہوتے ہیں، ان ممالک میں ملیشیا، بھارت، سنگاپور، انڈینیشیا، ترکی، امریکہ، کینڈا، ناروے، آذربائیجان، سوڈان، برطانیا، بحرین، بوسنیا اور ہرزگوئینہ، تیونس، پاکستان، آسٹریلیا، جرمنی، رومانیہ، کویت، ھسپانیہ، جنوبی افریقا، سوئیڈن، وینزوئیلا، البانیہ، یمن اور یونان شامل ہیں.
مختلف مغربی خبررساں ایجنسیاں عام طور پر چپ سادھ لیتی ہیں یا پھر ہزاروں افراد یا دسیوں ہزار افراد جیسی عبارات استعمال کرتے ہوئے کوشش کرتی ہیں کہ مظاہرے میں شریک عوام کی تعداد کو کم کر کے بتائیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے صدر اسلامیہ جمہوریہ ایران جو تہران میں اس مظاہرے سے خطاب کرتے ہیں ان کے ایسے جملات کا انتخاب کیا جائے اور اسی طرح مثال کے طور پر اپنی رپورٹ میں صہیونیوں کی خلاف کمپیوٹر گیمیں بانٹی گئیں ، جیسے جملات کا انتخاب کیا جائے جس سے اسرائیل کی مظلومیت کو جلوہ گر کر سکیں
یوم القدس شخصیات کی نظر میں
امام خمینی کی کلام میں
"یوم القدس عالمی ہے اور یہ صرف قدس سے متعلق نہیں ہے. یہ مستضعفین کا مستکبرین کے ساتھ مقابلے کا دن ہے، یہ ان اقوام کے مقابلے کا دن ہے جو امریکہ اور غیر امریکہ کے ظلم تلے دبے ہوئی تھیں، ایسا دن ہے جب مستضعفین کو چاہئے کہ مستکبرین کے خلاف پوری طرح تیار ہو جائیں اور ان کو ذلیل و خوار کریں.
"یوم القدس صرف فلسطین سے مخصوص نہیں ہے، یہ اسلام کا دن ہے؛ یہ اسلامی حکومت کا دن ہے. ایسا دن ہے جب اسلامی جمہوریہ کا جھنڈا تمام ممالک میں بلند کیا جانا چاہئے. ایسا دن ہے جب سپر طاقتوں کو سمجھانا چاہئے کہ اب اسلامی ممالک میں آگے نہیں بڑھ سکتے. میں یوم القدس کو اسلام اور رسول اکرم کا دن سمجھتا ہوں، ایسا دن ہے جب ہمیں چاہئے اپنی تمام طاقتوں کو یکجا کریں؛ اور مسلمانوں کو اپنے خول سے نکلنا چاہئے، اور اپنی تمام طاقت و توانائی کے ساتھ اجانب اور بیگانوں کے سامنے کھڑے ہو جائیں.”
"یوم القدس ایسا دن ہے جب تمام سپر طاقتوں کو وارننگ دی جانی چاہئے کہ اب اسلام آپ کے خبیث ہتھکنڈوں کی وجہ سے آپ کے زیر تسلط نہیں آئے گا، یوم القدس، اسلام کی حیات کا دن ہے.
"یوم القدس ایک اسلامی دن ہے، اور یہ ایک عام اسلامی رضاکاروں کا دن ہے. مجھے امید ہے کہ یہ مقدمہ بنے گا ایک "حزب مستضعفین” کے لئے.
"اگر امت مسلمہ نہ جاگی اور اپنے وظایف سے واقف نہ ہوئی، اگر علمائے اسلام نے ذمہ داری کا احساس نہ کیا اور اٹھ نہ کھڑے ہوئے، اگر واقعی اور اصیل اسلام جو اجانب کے خلاف تمام مسلمان فرقوں کے درمیان اتحاد و تحرک کا باعث ہے اور مسلمان اقوام اور اسلامی ممالک کی سیادت و استقلال کا ضامن ہے، اگر بیگانوں اور اجانب کے عوامل کے ہاتھوں اور سامراجی سیاہ پردوں کے اندر بھڑکنے لگے تو اسلامی سماجوں کے لئے اس سے بھی زیادہ سیاہ اور برے دنوں کا انتظار کیجئے اور اسلام کی بنیاد اور قرآن کے احکام کو بہت تباہ کن خطرہ لاحق ہے.
"تاکید کے ساتھ مناسب ہے کہ بلکہ واجب ہے کہ شرعی وجوہات کا ایک حصہ جیسے زکات اور دوسرے صدقات کافی مقدار میں ان راہ خدا کے مجاہدوں کے لئے مختص کیا جانا چاہئے . . . اور اپنے تمام افراد اور امکانات کے ساتھ ان کی مدد کرنا واجب ہے
آیت اللہ خامنہ ای کی کلام میں
"مہم چیز یہ ہے کہ اسلامی دنیا کو فلسطین کے مسئلہ سے غفلت نہیں کرنی چاہئے ۔ ۔ ۔ امریکہ، استکبار اور صہیونیوں کے حامیوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان فلسطین کو بھول جائیں لیکن امت مسلمہ اور ایرانی عوام کو چاہئے کہ فلسطین کے مسئلہ کو نہ بھولیں۔”
"خود فلسطین کے اندر بھی اس مقدس شعلے کو بھڑکتا رہنا چاہئے۔ وہ جوان وہ خواتین وہ مرد اور وہ تمام ایسے فدا کار لوگ جو فلسطین کے اندر رہ کر غاصب حکومت کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں، ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اصلی نقطہ وہی ہے جس پر انھوں نے ہاتھ رکھا ہے، یہ وہی مقام ہے جہاں پر دشمن کو شکست ہو گی۔ یہ جو فلسطینی سرحدوں سے باہر بیٹھ کر یہ آرگنائزیشنیں آپس میں مذاکرت کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں اور تقریروں میں خود نمایی کر رہے ہیں، ان سے یہ مشکل حل نہیں ہو گی۔ باہر سے اسلامی دنیا کی حمایت اور اندر سے فلسطینی عوام کے محسوس مقابلہ مل کر اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ اور فلسطین کے دشمن کو عبرتناک شکست ہو گی۔”
"یوم القدس کو منانا چاہئے اور اس کا احترام کرنا چاہئے، اگر دنیا کا میڈیا اس کو منعکس نہ بھی کرے تو نہ کرے۔ وہ لوگ جو فلسطینی زندانوں میں محبوس ہیں ۔ ۔ ۔ آپ کی اس صادقانہ نیت اور عزم سے قوت کا احساس کرتے ہیں اور مقاومت کرتے ہیں۔ وہ مبارز شخص جو مقبوضہ فلسطین کے زندانوں میں ہے، اس کو تنہائی کا احساس نہیں ہونا چاہئے تا کہ کھڑا رہ سکے۔ وہ خواتین اور مرد جو بیت المقدس اور غزہ کی پٹی اور اسی طرح فلسطین کے دوسرے شہروں کی گلی کوچوں میں صہیونی اوباش و غنڈوں کے ہاتھوں پٹتے ہیں ان کو یہ احساس ملنا چاہئے کہ آپ ان کی حمایت کر رہے ہیں تا کہ وہ مقاومت کر سکیں۔ ہاں البتہ حکومتوں کے بھی اپنی خاص وظائف ہیں۔”
"میں صراحت سے اعلان کر رہا ہوں کہ ہر فلسطینی جوان جو خون میں نہلا دیا جاتا ہے یا ہر فلسطینی گھرانہ جو بے سرپرست رہ جاتا ہے اور ان کا خاندان بکھر جاتا ہے اس میں امریکی حکومت اور اس کے صدر کا بلا واسطہ طور پر ہاتھ ہے اور وہ اس جرم میں شریک ہے۔”
"فلسطینی مسئلے کا صرف ایک ہی راہ حل ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام فلسطین کی سرزمین میں ایک فلسطینی حکومت تشکیل دی جائے۔”
"فلسطینی مٹی کا ایک ایک بالشت، تمام مسلمانوں کے گھر کا ایک بالشت ہے۔ فلسطینی حاکمیت کے علاوہ کوئی بھی دوسری حکومت اور مسلمانوں کے علاوہ کوئی بھی دوسری حکومت غاصب ہے۔ ہمارا موقف بھی وہی ہے جو امام راحل حضرت امام خمینی نے فرمایا تھا: اسرائیل کو صفحے ہستی سے مٹ جانا چاہئے۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا مسئلہ یہودیوں سے نفرت اور دشمنی نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا گھر غصب کیا گیا ہے۔
یوم القدس کے اہداف
آیت اللہ خامنہ ای کی نظر میں یوم القدس کے اہم اہداف کو ان بنیادی امور میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے۔
یوم القدس مظلوموں کی مستبد اور ظالموں کے خلاف صف آرائی کا دن
دنیا کے جغرافیائی نقشے سے فلسطین کا نام ختم کرنے اور فلسطین کے مسئلے کو بھول جانے میں رکاوٹ
ایسا دن جب فلسطینی عوام کو یہ احساس ہوتا ہے کہ دوسری اقوام ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہیں.
امت مسلمہ کی رگوں میں خون پھونکنے کا دن
ایسا دن جب مسلمان اقوام اپنے سربراہوں کی وساطت کے بغیر اپنی بات دوسروں کے کانوں تک پہونچا سکتے ہیں.
ملکی سلامتی اور اسلامی انقلاب کے سرمایوں کی حفاظت کا دن
دوسری شخصیات کی نظر میں
سید حسن نصراللہ حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکرٹری:
صہیونی دشمنوں کے ساتھ مقابلہ اور ان سے جنگ کو اولویت ہونی چاہئے اور اگر ابتدا سے ہی اس طرح ہوتا تو جس نقطے پر آج کھڑے ہیں، یہاں نہ ہوتے۔ ۔ ۔ ۔ اگر اعراب نے جو پیسہ ایران اور شیعہ دشمنی پر خرچ کر ڈالا اس کا پانچواں حصہ بھی فلسطین کے لئے خرچ کرتے تو ابھی تک فلسطین آزاد ہو چکا ہوتا۔