ملی یکجہتی کونسل دیوبندیوں کی سیاسی ساخت بچانے کے لیے میدان میں آگئی، اندورنی کہانی!!
تحریر:شیعہ نیوز ریسرچ ڈیسک
ملی یکجہتی کونسل دیوبندیوں کی سیاسی ساخت بچانے کے لیے میدان میں آگئی ہے، اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں جاری ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران کے احتجاجی دھرنوں اور انکے انقلابی و آزادی منشور نے ملک خدادا پاکستان کی سیاست پر گذشتہ پچاس سالوں سے قابض دیوبندیوں کی بساط کو خطر ے میں ڈال دیا ہے، اس حوالے سے میاں نواز شریف کی حمایت میں سارے دیوبندی اور تکفیری گروہ جمع ہوگئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں تکفیریوں کو استعمال کیا گیا لیکن انکی فرقہ وارانہ اور نفرت پر مبنی ریلیوں کے رد عمل میں نواز شریف کو مزید مشکلات اُٹھانا پڑیں،لہذا دوسر ے مرحلے میں دیوبندیوں نے ملی یکجہتی کونسل کو فعال کردیا ہے، گذشتہ روز ایم وائے سی کا اجلاس طلب کیا گیا جس میں سیاسی بحران کو حل کرنے کے لئے کونسل نے خود کو ثالثی کے طور پر پیش کردیا ہے۔
ملی یکجہتی کونسل
ملی یکجہتی کونسل بنانے کا مقصد ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے بنائی گئی تھی جس میں ملک کی تمام مذہبی جماعتوں کو شامل کیا گیا ہے، جس میں شیعہ نمائندگی شیعہ علماءکونسل کے علامہ ساجد نقوی اور مجلس وحدت مسلمین کے علامہ امین شہید ی کرتے ہیں، لیکن اس گروہ پر دیوبندیوں کا عمل دخل کافی زیادہ ہے، یہ ایک غیر سیاسی ادارہ ہے لیکن حال میں دیوبندیوں کے سیاسی کیئر یرکو خطر ے میں پڑتے دیکھ کر ملی یکجہتی کونسل نے غیر سیاسی ایجنڈا ختم کرکے سیاست میں قدم رکھ دیا ہے۔
کونسل اجلاس کی اندورنی کہانی!!
گذشتہ روز ہونے والے کونسل کے اجلاس کی شروعات اس سوال پر ہوئی کے اسلام آباد میں جاری دھرنے ملکی سالمیت کے لئے خطرہ اور غیر آئینی ہیں کونسل کے اجلاس کا مقصد انقلاب مارچ کے خلاف قراداد منظور کروانا اور وزیر اعظم نواز شریف کی حمایت کا اعلان کرنا تھا اور مذاکرات کی میز پر بیٹھا کر معاملات کو رفاع کرنا تھا۔ لیکن اس موقع پر علامہ امین شہید ی نے مدلل دلائل سے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفیٰ دینے کے مطالبہ کو آئین کے تناظر میں پیش کیا اور کونسل کے اجلاس کے شرکا ءکا انقلاب مارچ کے دس رکنی نکات کو نسل سے سامنے رکھے اور ڈاکٹر قادری سے ملاقات کرنے کی تجویز دی جس پر کونسل نے علامہ امین شہید ی کو ذمہ داری دی کے ہماری ملاقات کروائی جائے، اس موقع پر علامہ امین شہید ی نے مولانا فضل الرحمن کے بیان کی شدید مذمت کی اور احتجاج کے طور پر پریس بریفنگ میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔
ہماری اطلاعات کے مطابق علامہ امین شہیدی وہ واحد فرد تھے کہ جنہوں نے فضل الرحمان کی جانب سے شام غریباں کے حوالے سے بیان پر احتجاج کیا اور کہا کہ شام غریباں اہل بیت رسول ؑ سے منسوب سے اس ہی لئے اس طرح کے بیانات توہین اہلبیت کے زمرے میں آتے ہیں اور ملی یکجہتی کونسل کو معاملے پر بھی اپنی رائے دینی چاہیے۔ اطلاعات کے مطابق علامہ امین شہیدی نے ملی یکجہتی کونسل کے اراکین کو قائل کیا کہ وہ طاہرالقادری کے مطالبات کو بغور سنیں اور ان کے جائز مطالبات کی حمایت کریں۔ بعدازاں ملی یکجہتی کونسل کے رہنماو¿ں نے علامہ طاہر القادری سے ملاقات کی اور ان کے دس نکاتی انقلابی فارمولے کو جائز قرار دیتے ہوئے ان کی حمایت کا اعلان کردیا۔
ملی یکجہتی کونسل کے اس سیاسی عمل پر شیعہ نیو ز کا سوال
شیعہ نیوز کا ملی یکجہتی کونسل کے اکابرین اور رہنماوں سے سوال ہے کہ ملی یکجہتی کونسل ایک غیر سیاسی پلٹ فارم ہے، سیاست میں کس حیثیت میں داخل ہوا؟ سانحہ عاشور ا راولپنڈی ، جب شیعوں کے امام بارگاہ جل رہے تھے مکانات پر حملے کیئے جارہے تھے اس وقت ملی یکجہتی کونسل کہاں تھی، جبکہ یہ موقع ملی یکجہتی کونسل کے منشور کے مطابق تھا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے، لیکن اس موقع پر کیو ں کونسل کا کردار صرف اجلاس تک ہی کیوں محدود رہا؟ اسلام آبا دمیں جمہوریت کے حق میں نکالی گئی ریلی میں کھلے عام شیعہ اور سنی مسلمانوں کے خلاف تکفیرکے اعلان پر ملی یکجہتی کونسل نے کیوں کوئی ردعمل نہیں دیا نا ہی احتجاجی بیان دیا؟ نواز حکومت کے تحفظ کے لئے آپ نے اپنے ایجنڈے کے برخلاف سیاست میں کودنے کا فیصلہ کس کی ایماءپر کیا؟ سانحہ ماڈل ٹاو¿ن جب معصوم سنیوں کو پنجاب پولیس ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنارہی تھی تو اس وقت میدان میں کیوں نہیں آئے؟ لیکن اب جب دیوبندی سیاسی مستقبل خطر ے میں جاتا نظر آیا تو آپ کیوں متحرک ہوگئے؟ ان سوالوں کے جواب ہمارے سامنے ہیں کے ملی یکجہتی کونسل بھی متحد ہ مجلس عمل کی طرح دیوبندی سیاست کا ایک حربہ ہے، چونکہ شیعہ اور سنی اس ملک کی حقیقت ہے لہذا دیوبندی ماسٹر مائنڈ شیعہ اور سنیوں کو بھی اپنے ساتھ رکھ کر اتحاد کے نام پر اپنی سیاست چمکاتے ہیں۔ اور ہم سمجھتے ہیں کے ملی یکجہتی کونسل کی یہ حرکت قاضی حسین احمد کے نظریات کی مکمل نفی ہے۔اور ہم ملی یکجہتی کونسل کی دیوبند نواز پالیسی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
شیعہ ،سنی ، دیوبندی
پاکستان کی سرزمین پر بسنے والے ۷۱ کرڑو عوام کی اگر حلقہ بندی یا فرقہ بندی کی جائے تو پاکستان کی ۰۱ کرڑوآبادی سنی بریلوی مسلمانوں کی ہے، اس کے بعد ۵ کرڑو شیعہ مسلمان پاکستان کی سرزمین پر بستے ہیں، جبکہ صرف ۲ سے ۳ کرڑودیوبندی، وہابی اور سلفی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان بنے کا مخالف بھی یہی
فرقہ تھا مگر پاکستان بنے کے بعد جب یہاں کی عوام اپنے شہداءکی قربانی اور مال و اسباب لٹ جانے کی وجہ سے زبوحالی کا شکار تھی تو اس موقع پرست فرقے نے فوراً آکر ملکی سیاست پر ،جماعت اسلامی اور جے یو آئی کی شکل میں قبضہ کرلیا جو تاحال جاری ہے۔ بدقسمتی سے روز اول سے ملک خداداد پاکستان کی سرزمین پر اس ۲ سے ۳ فیصد والی آبادی کا فرقہ ملک کی سیاست پر قابض ہے ، لیکن اب جب پاکستان کی اکژیتی آبادی اپنے حقوق کے لئے میدان میں آئی تو اقلیتی فرقہ پریشان ہوگیا ہے ۔ لہذا اپنی کرسی بچانے کے لئے اب اپنے مہروں کو استعمال کررہا ہے جو پچاس سالوں میں اس نے تشکیل دیے تھے۔