بلوچستان میں امریکی سعودی نواز تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ
خطے میں جغرافیائی اہمیت اور معدنی وسائل سے بھی مالامال ہونے کے باوجود صوبہ بلوچستان اکثر وفاق کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بنیادی ضروریات زندگی سے محروم رہا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ باعث تشویش صوبے میں مذہبی انتہاء پسند تنظیموں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے، جہاں آبادی کم و بیش ایک کروڑ بتائی جاتی ہے، میں ایسی تنظیموں کو ریاستی سرپرستی یا کم از کم ریاستی ہمدردی تو ضرور حاصل ہے اور یہی چیز صوبے کی پیچیدہ صورتحال کو مزید ابتر بنانے میں کردار ادا کر رہی ہے۔
عراق اور شام میں جہاں نام نہاد جہادی تنظیم "آئی ایس آئی ایس” ایک وسیع تر خلافت کا خواب لئے خطے میں آگ و خون کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے، وہیں تنظیم کی بین الاقوامی جہادی آئیڈیالوجی پاکستان میں بھی لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا رہی ہے۔ پشاور میں افغان کیمپس میں جہادی لٹریچر کی تقسیم اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی چند مہینے قبل پنجگور کے علاقے میں نجی اسکولوں اور لینگویج سینٹرز کو دھمکیاں دی گئی تھی۔ بعدازاں پورے ضلع میں تعلیمی اداروں کو لمبے عرصے تک بند رکھا گیا۔ وزیراعلٰی بلوچستان کی جانب سے سکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کے بعد تعلیم کا سلسلہ تو دوبارہ شروع ہوگیا، تاہم اسکے فوراً بعد علاقے میں "آئی ایس آئی ایس” کے نام سے وسیع پیمانے پر وال چاکنگ کی گئی اور پمفلٹس بھی تقسیم کئے گئے۔ اس ضمن تشویش میں اس وقت اضافہ ہوا، جب دہشتگردوں نے ضلع تربت کے علاقے کیچ میں ایک سرکاری اسکول کو نظر آتش کر دیا۔ اپنے پیغام میں "الجہاد” نامی گروہ نے "آئی ایس آئی ایس” کی عراق میں کامیابیوں کو سراہتے ہوئے، اپنی کارروائیوں کو بھی اسی طرز پر جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔
بلوچستان میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ تو پہلے ہی سے جاری تھی، لیکن اب کی بار بلوچ قوم کے ذکری قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد کو خضدار کے مقام پر اس وقت نشانہ بنایا گیا، جب وہ اپنی عبادت میں مصروف تھے۔ بعدازاں "آئی ایس آئی ایس” کی حامی اسی جہادی تنظیم نے واقعے کی ذمہ داری قبول کی۔ پشاور سے لیکر بلوچستان تک پہلے سے موجود دہشتگرد تنظیمیں آئی ایس آئی ایس کیساتھ وسیع پیمانے پر اتحاد کرکے پاکستانی عوام اور ریاستی اداروں کیلئے مسائل میں اضافہ کرسکتی ہیں۔ اسکے علاوہ کراچی ڈاکیارڈ حملے میں ملوث نیوی اہلکاروں کی گرفتاری بھی ایک لمحہ فکریہ ہے، کیونکہ عراق و شام میں آئی ایس آئی ایس کو عراقی آرمی سمیت دیگر اداروں میں موجودہ جہادی نظریئے کے حامیوں نے ہی امداد فراہم کی۔ جس طرح وزیرستان میں ریاستی اداروں کیجانب سے ان دہشتگردوں کو اپنے ذاتی مقاصد کے استعمال کیلئے محفوظ پناگاہیں دی گئی اور آج ان کیخلاف آپریشن کیا جا رہا ہے، اسی طرح بلوچستان میں انکو محض بلوچ تحریک کو کچلنے کی غرض سے استعمال کرنا، ماضی کی غلطیوں کو دھرانے کے مترادف ہوگا۔