افسوس کہ پاکستان کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہےجنھوں نے قائداعظم ؒ کو کافر اعظم کہا تھا، علامہ عون نقوی
شیعہ نیوز (کراچی) جعفریہ الائنس کے مرکزی رہنما اور ادارہ تبلیغ تعلیمات اسلامی پاکستان کے سربراہ علامہ سید عون نقوی نے کہا ہے کہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ہم ہر فورم اور مختلف محافل میں بیٹھ کر تو فرقہ واریت کے خاتمے کی بات کرتے ہیں، میڈیا پر اتحاد بین المسلمین کا مظاہرہ ہوتا ہے مگر جب ہم تمام علما اپنے عوام میں جاتے ہیں تو ان میں فرقہ واریت کے حوالے سے شعور بیدار نہیں کرتے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے روزنامہ ایکسپریس کے فورم میں دیگر علمائے کرام کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان کی باگ ڈور اس وقت ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو اس ملک کے خیرخواہ نہیں اور جنھوں نے قائداعظم ؒ کو کافر اعظم اور تحریک پاکستان کو کفریہ تحریک سے تعبیر کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں منسٹرز انویسٹرز بنے ہوئے ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں بلدیاتی نظام موجود نہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ فوج کو حکومت میں شامل ہونا چاہیے، کم از کم وزیر داخلہ اور وزیر دفاع فوج سے ہی ہونا چاہیے ۔ اتنی خونریزی اور قتل و غارت ہورہی ہے لیکن حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔
علامہ عون نقوی کا کہنا تھا کہ ہم یہ بات علی الاعلان کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ہم فرقہ واریت اور انتہا پسندی کی شکل میں جس درخت کا کڑوا پھل کھارہے ہیں، وہ ضیا الحق کے دور میں بویا گیا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یہ کڑوا پھل نہ اُگلا جارہا ہے نہ نگلا جارہا ہے۔ اُس دور میں اگر تمام مسالک کے علمائے کرام اس حکمت عملی اور پالیسی کی مذمت کرتے، مخالفت کرتے تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تمام علمائے کرام حضرات کو اپنی اپنی کمیونٹی میں اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المسالک کی تعلیم عام کرنی چاہیے کیونکہ جن علما کے پاس منبر و محراب کی ذمے داری ہے وہ اپنے اپنے زیر اثر علاقوں اور لوگوں کو جو بات کہیں گے، اس پر عمل یقینی طور پر زیادہ ہوگا۔ دوسری جانب علما کے بھیس میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مراعات اور جاہ و حشم کی بدولت عوام کو ورغلاتے ہیں لیکن ان کی تعلیمات کی نوعیت بالکل مختلف ہوتی ہے، یہ وہ عناصر ہیں جو ملک میں امن نہیں چاہتے۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران میں خطبات جمعہ سرکاری طور پر ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں بگاڑ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ’’علمائے سُو‘‘ نے صورتحال کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم اپنی سطح پر، اپنی محافل و مجالس میں کوشش کررہے ہیں کہ اتحاد بین المسلمین کا پیغام عام کیا جائے۔ ہمارا شروع سے موقف رہا ہے کہ کلمہ پڑھنے والا مسلمان ہے،ہاتھ کھول کر یا ہاتھ باندھ کرنماز پڑھنے کی وجہ سے کسی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا۔ مظاہروں اور احتجاجی جلوسوں میں تشدد کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں بھی بڑے بڑے احتجاجی جلوس اور مظاہرے ہوتے ہیں لیکن وہاں کوئی بدمزگی نہیں ہوتی، ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ خفیہ ہاتھ فساد پھیلا رہا ہے اور وہ احتجاج اور مظاہروں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرلیتا ہے۔
اجتہاد کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا۔فرقہ واریت شیعہ، سنی، دیوبندی اور بریلوی مسالک کا مسئلہ نہیں، پہلے بعض مقامات پر تنازعات ہوتے تھے۔ لیکن جب عوام میں میڈیا کے ذریعے اور دیگر ذرائع سے شعور بڑھا ہے تو انھیں سمجھ آرہی ہے کہ اختلافات کی آگ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھڑکائی جارہی ہے، اگر عوام میں فرقہ واریت کے جراثیم ہوتے تو ہر واقعے کے بعد گلی کوچوں میں لڑائیاں ہورہی ہوتیں۔ یہ اجتہاد ہی ہے جس نے صورتحال کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔ مولانا عون نقوی کا کہنا تھا کہ نبی ؐ کی شان میں گستاخی پر ہر مسلمان کا طیش میں آنا فطری بات ہے، اگر علما لوگوں کو قابو میں نہ رکھتے تو ایسی آگ لگتی جسے بجھانا مشکل ہوتا۔ ایک سوال پر انھوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ تمام مکاتب فکر کے علما ءمل کر ایسا نظام بنائیں جو سب کو قبول ہو۔