پاکستانی ریاستی اداروں میں انتہاپسندوں کی موجودگی (خصوصی کالم)
تحریر: امجد عباس مفتی
ریاستی ادارے دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکے، حکومتی آشیرباد اور دفاعی اداورں کی دہشت گرد ساز پالیسیاں ابھی تک جاری ہیں۔ افغانستان، انڈیا اور شام میں کردار ادا کرنے یا انہیں سبق سکھانے کے چکر میں خفیہ اداروں کی زیرِ سرپرستی تربیتی کیمپ ابھی تک بنائے جا رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب بہترین انتخاب قرار پایا ہے۔ مذہبی انتہاء پسندی بڑھانے میں ریاست براہِ راست ملوث ہے۔ مذہبی قوانین ہوں یا مذہبی انتہاء پسندوں کی دادا گیری و سرپرستی کا چکر، ریاست پیش پیش ہے۔ حکومتوں نے مذہبی تکفیری انتہاء پسندوں کو "گلو بٹ” بنا رکھا ہے جو قانون ہاتھ میں لیکر خود مدعی، خود منصف بن کر سزا دیتے ہیں، جبکہ حکومت رپورٹ طلب کر لی گئی کا راگ الاپتی رہتی ہے۔
اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا پاکستان، جس کا رول ماڈل ریاستِ مدینہ کو قرار دیا گیا تھا، اس میں بسنے والے تمام شہریوں کو یکساں حقوق دینے کے وعدے کئے گئے تھے، اب وطنِ عزیز غلط حکومتی پالیسیوں کی بنیاد پر "تھیو کریسی” کی طرف گامزن ہے۔ اہلِ مذہب قیامِ پاکستان کی تحریک کے وقت سے ریاست کی مخالفت میں پیش پیش تھے، بانی پاکستان کو کافرِ اعظم کہا گیا۔۔۔ اب مٹھی بھر جنونی دہشت گرد، جنکی اپنے مسلک میں کوئی حیثیت نہیں وطنِ عزیز کو دہشت گردوں کی جنت بنا چکے۔۔۔
ایک مخصوص دینی مسلک، جس کی ماضی میں علمی و عملی خدمات قابلِ صد تحسین ہیں، اسے دہشت گرد ذہنیت یرغمال کرچکی، یہ مسلک آج دہشت گردوں کا سرپرست اور انہیں علمی بنیادیں فراہم کرنے والا بن چکا ہے۔ ملک میں 95 فیصد دہشت گرد گروہوں کا تعلق اسی مسلک سے ہے، آج اسی مسلک کی نمائندہ جماعت "تحریکِ طالبان پاکستان” ریاست کے مقابل ہے، اس مسلک کے تکفیری علماء و مدارس کے مطابق پاکستان کا آئین غیر شرعی ہے، جبکہ اس مسلک کے ذمہ دار علماء و مدارس جو اکثریت میں ہیں، خاموش تماشائی قرار پائے ہیں، کچھ علماء داعیِ امن و اتحاد کا کردار ادا کر رہے ہیں جیسے مولانا فضل الرحمان، تبلیغی جماعت وغیرہ۔۔۔
بایں ہمہ یہ مسلک مذہبی عدمِ برداشت کا بدترین مظہر جبکہ تکفیری جماعتیں اسی کی چھتری تلے ہیں۔۔۔ آج ریاست، اس کے اداروں اور شہریوں کو اسی مکتبہِ فکر کے دہشت گردوں کا سامنا ہے۔ پبلک مقام سے جی ایچ کیو تک حملے میں اسی مکتبہِ فکر کے دہشت گرد ملوث ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تحریکِ طالبان جیسی ریاست مخالف دہشت گرد تنظیمیں صرف مخصوص مکتبہِ فکر سے تعلق رکھتی ہیں؟؟؟ باقی مسالک (بریلوی، اہلِ حدیث اور شیعہ) میں ایسی جماعتیں کیوں نہیں بن سکیں، کسی دہشت گرد گروہ نے سر اٹھایا بھی تو اسے ان کے اپنے مسلک نے قبول نہ کیا۔۔۔ ہاں کچھ جماعتوں کا دائرہ کار "کشمیر” ہے جیسے لشکرِ طیبہ۔
آخر کیا وجہ ہے تکفیری عناصر کو مخصوص مسلک کی تائید حاصل ہے، وہ اسی مسلک سے منسلک جبکہ دیگر مسالک اس طرح تکفیر نہیں کرتے نہ ان کی تکفیری جماعتیں ہیں؟؟؟ ہاں یہ تلخ حقیقت ہے کہ لشکرِ جھنگوی کے رہنما ”ریاض بسرا” کو اس کے مکتبِ فکر کے علماء، افغان طالبان حکومت اور پاکستانی خفیہ اداروں کی سرپرستی حاصل تھی اور آج تک اس جماعت کے سرخیل "ملک اسحاق” کی ریاستی سرپرستی جاری ہے۔ حکومتی اداروں میں "مخصوص” مسلک کے انتہاء پسندوں نے غداری کی، جی ایچ کیو حملے میں ڈاکٹر عثمان ہو یا مہران بیس حملہ کے ملزمان، سب کا تعلق ایک ہی سکول آف تھاٹ سے ہے۔
ریاست کو خاموش تماشائی نہیں بننا ہوگا نہ ہم مزید چپ رہیں گے۔ ریاستی اداروں میں موجود مذہبی انتہاء پسند جو ریاستی ملازم بھی ہیں، حکومتی سرپرستی میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔۔۔ بطورِ مثال چند جرائم جو حکومتی عہدیداران، دہشت گردوں نے مذہبی بنیادوں پر کئے ملاحظہ ہوں: گورنر کو مذہبی جنونی نے سرِعام قتل کر دیا، آج مخصوص مسلک قاتل کے دفاع میں پیش پیش ہے۔ بلوچستان میں عیسائی ایم پی اے کو ماتحت سپاہی نے دن دیہاڑے قتل کر دیا۔
جی ایچ کیو پر حملہ، ڈاکٹر عثمان کی وساطت سے۔ شہر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں جیل پولیس کے ایک اہلکار نے جیل میں سزائے موت کے پاکستانی نژاد برطانوی مجرم کو گولیاں مار کر زخمی کر دیا۔ شہر گجرات میں ایک پولیس افسر نے لڑائی، جھگڑے کے الزام میں زیر حراست ملزم کو دورانِ تفتیش توہینِ مذہب کا مرتکب قرار دیکر اس کی گردن اور سر پر کلہاڑی کے وار کرکے اسے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
شہریوں کے محافظ ادارے کب تک انہی کی جان لیتے رہیں گے؟؟؟
کب تک ریاستی اداروں میں مذہبی انتہاء پسندوں کو بھرتی کیا جاتا رہے گا؟؟؟
کب تک عدلیہ کے ججز مخصوص مسلک سے منتخب ہوتے رہیں گے؟؟؟ کب تک اسلامی نظریاتی کونسل کی سرپرستی مخصوص مسلک کے ہاتھوں رہے گی جبکہ باقی مسالک کا کوٹہ پورا بھی نہیں کیا جاتا؟؟؟
کب تک دفاعی اداروں میں بھرتی کے وقت مذہب اور مسلک کا پوچھا جاتا رہے گا؟؟؟
کب تک ریاست کو مخصوص مسلک کی سٹیٹ کے طور پر پیش کیا جاتا رہے گا؟؟؟
کب تک حکومتی عہدیدار مخصوص مسلک کے جنونی، مسلکی بنیادوں پر قتلِ عام کرتے رہیں گے؟؟؟
کب تک کالعدم جماعتوں کو آئی ایس آئی سپورٹ کرتی رہے گی، اب تو مولانا فضل الرحمان بھی کچھ بول رہے ہیں؟؟؟
یہ سارا کھیل کب تک کھیلا جاتا رہے گا؟؟؟
کب تک اسلامی انٹرنیشنل یونیورسٹی اور اس کے ذیلی ادارے نیز دیگر سرکاری اسلامک ریسرچ سنٹرز م
خصوص مذہبی ٹولے کے ہاتھوں یرغمال رہیں گے؟؟؟
کب تک ملکی مذہبی ادارے مخصوص مسلک کے زیرِ اثر رہیں گے؟؟؟
کب تک ریاست مخصوص مذہبی دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال رہے گی؟؟؟
ریاستی ادارے بشمول عدلیہ کب تک مخصوص مسلک کو تحفظ و پروان چڑھائیں گے؟؟؟
کب تک سیاسی جماعتیں الیکشن میں تکفیری دہشت گردوں کی مدد لیتی رہیں گی؟؟؟
ارے وردی والو!!!
تم نے افغان وار سے عبرت نہیں لی؟؟؟
سانحہِ مشرقی پاکستان سے ہی عبرت لے لیتے، محروم طبقے اٹھ کھڑے ہوئے تو۔۔۔ موجودہ تحریکِ طالبان ساز فوجی جرنیل آج بھی فخر کرتے ہیں، ایجنسیاں آج بھی اچھے طالبان پال رہی ہیں۔۔۔
لیکن دہشت گرد پال پالیسی سے ہمیں کیا ملا؟؟؟
کشمیر آزاد ہوا؟؟؟
افغانستان ہمارا بغل بچہ بن گیا؟؟؟
انڈیا تائب ہوگیا؟؟؟
یا صرف ہماری تباہی ہوئی، ریاستی ادارے کمزور ہوئے، شہری مارے گئے، ہماری دنیا بھر میں رسوائی ہوئی۔۔۔ آج ہمیں دینا بھر میں دہشت گرد کہا جا رہا ہے۔۔۔
اب بھی وقت ہے کہ وزارتِ مذہبی امور کو فی الفور ختم اور ریاستی مذہبی اداروں پر مخصوص مسلک کی اجارہ داری کا خاتمہ کر دیا جائے، آمریت کے سیاہ دور کی مخصوص مسلک نواز پالیسی سے رکنا ہوگا نیز توہینِ رسالت و توہینِ مذہب کے قوانین کے اطلاقی طریقہ کار پر نظرِثانی کی جانی چاہیے۔ دہشت گرد ساز پالیسی اب ختم ہوجانی چاہیے تھی۔ حکومتی اداروں کو مذہبی جنونیوں سے پاک کرنا ہوگا، یہ حقیقت ہے کہ اِن سب کا تعلق مخصوص مسلک سے ہے۔ اس مسلک کے معتدل علماء کرام و مدارس کو متعارف اور ان کی حوصلہ افزائی جبکہ تکفیری مولویوں کو روکنا اور انکی جماعتوں اور اداروں کو بند کرنا ہوگا۔۔۔ ہاں ریاست نے مخصوص مسلک کی سرپرستی جاری رکھی تو جو ہوگا برا ہوگا۔۔۔ مجھے جہد للبقاء سے پہلے میرے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کو ادا کرنا ہوگی ورنہ۔۔۔ سنجیدہ دیوبندی علماء و زعماء سے گزارش ہے کہ اس مسلک کو دہشت گرد، تکفیریوں سے بازیاب کرائیں اور تکفیریت سے کھلم کھلا دست برداری کا اعلان ہونا چاہیے۔۔۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب اس مسلک کی پہچان ہی عدمِ برداشت، انتہاء پسندی، دہشت گردی اور خودکش حملہ آور بنیں۔