مضامین

بلتستان سے تعلق رکھنے والے طالبان کے نئے ترجمان خالد خراسانی کے بارے میں اہم انکشاف

رپورٹ: محمد صادقی
 
بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی داعش میں شمولیت اور تحریک طالبان سے رخ پھیر لینے کے بعد بلتستان کے سرحدی علاقہ چھوربٹ تھونگبوس سے تعلق رکھنے والے خالد بلتی جنکا اصل نام مفتی محمد علی عرف خالد بلتی خراسانی ہے، کو نیا ترجمان مقرر کر دیا گیا ہے۔ خالد خراسانی نے ابتدائی تعلیم چھوربٹ گنگچھے سے ہی حاصل کی اور ان کے دو بھائی اور تین بہنیں بھی ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد خپلو ہائی سکول میں میٹرک کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد حزب المجاہدین میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ خالد خراسانی خاندانی طور پر صوفیہ نور بخشہ سے تعلق رکھتا ہے اور ذرائع کے مطابق حزب المجاہدین کے فعال ترین مجاہدین میں شمار ہوتا تھا۔ خالد خراسانی نے جہاد افغان و کشمیر کے دوران غیر معمولی جنگی کارنامے سرانجام دیئے۔ نہایت اہم ذرائع کے مطابق اس دوران خالد بلتی سرکاری نمبر پلیٹ کے ساتھ ایک بائیک پر بلتستان بھر میں مجاہدین کو منظم کرنے اور تربیت فراہم کرنے کیلئے سرگرم رہتا تھا۔ اسی دوران اس نے دین سمجھنے کیلئے جامعہ بنوریہ ٹاؤن کراچی میں باقاعدہ داخلہ لیا اور اپنے مسلک کو خیرباد کہہ کر وہاں کے اساتیذ کے سامنے زاونوئے تلمذ تہہ کر دیئے۔ مجاہدانہ خدمات کے سبب خالد بلتی نے اس جامعہ میں کم عرصے میں زیادہ مقام حاصل کیا اور بہت کم عرصے میں ہی فاضل کی سند حاصل کرنے کے بعد وہاں مدرس بھی مقرر ہوگیا۔ دوران تدریس وہ بلتستان اور گلگت کے مختلف علاقوں سے طلاب کو جامع بنوریہ ٹاؤن داخل کراتا اور جسمانی طور پر مضبوط افراد کو وزیرستان ٹریننگ کیمپ میں بھی لے جاتا رہا۔ ان کی فعالیت کے پیش نظر تحریک طالبان نے انہیں میڈیا سیل کا باقاعدہ حصہ بنایا اور انہیں پاکستان کے معروف میڈیا چینلز سے ٹریننگ بھی دلائی۔ اس کے بعد باقاعدہ عمر میڈیا سیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ خالد بلتی اسی میڈیا سیل کا انچارج تھا اور کافی عرصے تک اپنے فرائض منصبی انجام دیتا رہا۔

ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ایک عرصے تک خالد بلتی کے گھر میں راشن کا انتظام اور دیگر اخراجات ایک ریاستی ادارے کی ذمہ تھی، جو دو سال سے بند ہوچکا ہے۔ خالد بلتی خراسانی کی وسیع تر سرگرمیاں اور اس کے نیٹ ورک کی بلتستان میں موجودگی کی اطلاعات بھی ہیں اور وسیع پیمانے پر ایک ہی مکتب فکر کے افراد کو بنوریہ ٹاؤن مدرسہ میں داخل کرانے کے بعد وزیرستان طالبان کے دہشت گردوں کی تربیت گاہوں میں لے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ بلتستان کے متعلق ہوش اڑا دینے والی خبر یہ ہے کہ خالد خراسانی کے آٹھ قریبی مجاہدین اس وقت بلتستان سے باہر ہیں، ان میں سے ایک جو کہ ریاستی اداروں میں بھی مشکوک ہے، ایک عرصے سے مکمل طور پر غائب ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد میں سے ایک شخص پر فرقہ واریت کو ہوا دینے کے الزام میں ایف آئی آر بھی درج ہوچکی ہے۔ حساس اداروں نے بلتستان میں خالد خراسانی سے مربوط اداروں اور افراد کی فہرست بنانے کی کوشش کی لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ بلتستان میں موجود خالد خرسانی کا نیٹ ورک مختلف مذہبی تنظیموں کے نام سے متحرک ہے۔ ذرائع کے مطابق خالد بلتی جن کی بلتستان میں پہچان مفتی محمد سے ہے، نے سینکڑوں افراد کو دہشت گردوں کی تربیت گاہوں سے گزارا ہے، جو کہ بلتستان میں کسی وقت بھی کوئی کارروائی کرسکتے ہیں۔ خالد خراسانی کے نیٹ ورک میں جہاں مجاہدین اور جانثاران موجود ہیں، وہاں چند سرکاری اداروں میں موجود بڑی سطح کی شخصیات بھی موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان میں ایک سیکرٹری سطح پر حکومت میں ہے اور سابقہ ادوار میں ان کے بیرون ملک بھی رابطے بتائے جاتے ہیں۔

حساس ذرائع کے مطابق بلتستان میں خفیہ دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کیلئے ایک مالی ادارہ موجود ہے، جو کاروبار کے نام پر دہشت گردوں کی مالی معاونت میں مصروف ہے۔ بلتستان میں خالد خراسانی کے اعلان کے بعد دہشت گرد جماعتوں کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں بلکہ گلگت بلتستان کی متعصب انتظامیہ نے کھسیانی بلی کی صورت اختیار کی ہے اور اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ ایک عرصے سے گلگت بلتستان انتظامیہ متعصبانہ روئے کے تحت ایسے عناصر کو بسنے دے رہی ہے، بالخصوص خالد خراسانی کا دست راست جو مختلف دہشت گردانہ کارروائیوں میں مصروف رہا اور سکیورٹی اداروں کو اس کی سرگرمیوں کا علم بھی ہے، لیکن یہ ادارے اسے مسلسل چھوٹ دیتے رہے۔ گلگت بلتستان میں اسی ٹولے کو نظریاتی مواد فراہم کرنے اور اخلاقی معاونت کرنے والوں کیساتھ بھی انتظامیہ کا رویہ افسوسناک رہا ہے۔ بلتستان میں جمعہ کے خطبے میں سانحہ پشاور کو لال مسجد کا ردعمل قرار دینے والے مولوی بھی ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہیں۔ بلتستان میں اس طبقے کو نظریاتی معاونت فراہم کرنے والی دو شخصیات کو انتظامیہ شواہد کے باوجود مسلسل چھوٹ دے رہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو بلتستان میں میں بھی دہشت گردی کا جن بے قابو ہوجائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button