مضامین

فلسطینی ریاست کے قیام کی قراردار

تحریر: سید اسد عباس تقوی

 
گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں فلسطینی ریاست کے قیام کی قرارداد پیش کی گئی، جو مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کرنے کے سبب ناکامی کا شکار ہوئی۔ یہ قرارداد اقوام متحدہ میں تعینات اردن کی نمائندہ دینا کوار نے پیش کی۔ اس قرارداد کو بائیس عرب ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس قرارداد کے مسودے کے بارے میں حماس اور فلسطینی عوام کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ فلسطینی تجزیہ نگاروں نے اس قرارداد کے متن، روح اور وقت کے حوالے متعدد اعتراضات کئے، جو اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اس قرارداد میں اسرائیل سے حتمی امن منصوبے پر بات چیت کے لئے ایک سال کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی اور اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ وہ 2017ء کے اختتام پر مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کر دے۔ قرارداد میں نئے مذاکرات ان علاقائی خطوط کی بنیاد پر کرنے کی بات کی گئی تھی، جو اسرائیل کے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں غربِ اردن، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر قبضے سے قبل موجود تھے۔ ان مسائل کے علاوہ قرارداد میں قیدیوں کا مسئلہ، پانی کے مسائل، اسرائیلی تجاوزات کے مسائل کو بھی زیر بحث لایا گیا۔
 
قرارداد کے مسودے میں فلسطین کے حوالے سے اقوام متحدہ کے فورمز پر منظور ہونے والی مختلف قراردادوں کا حوالہ دیا گیا، جس میں قرارداد نمبر 242 (1967)، 338(1973)، 1397 (2002)، 1515(2003)، 1544(2004، 1850 (2008)، 1860 (2009) کے علاوہ اقوام متحدہ کی غیر قانونی تسلط (446)، یروشلم کی حیثیت (478) انسانی حقوق، عام شہریوں کے خلاف جارحیت کا استعمال،ریاستی دہشت گردی (1373) پناہ گزینوں کی آباد کاری (194iii) سے متعلق قراردادیں شامل ہیں۔ اس قرارداد میں مقدمہ یہ بنایا گیا کہ مسئلہ فلسطین کے پرامن حل کا ایک یہی راستہ ہے کہ اسرائیل مندرجہ بالا قراردادوں کی روشنی میں 1967ء سے قبل والی حیثیت پر واپس چلا جائے اور اس خطے میں دو آزاد، خود مختار جمہوری ریاستیں وجود میں آجائیں۔
 
اسی طرح قرارداد میں لکھا گیا کہ عرب امن معاہدے، عالمی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں خصوصاً قرارداد نمبر 194iii کی روشنی میں فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ حل کیا جائے۔ اقوام متحدہ کی عدل پر مبنی قرارداد کی روشنی میں قدس (یروشلم) کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔ اسی طرح دونوں ریاستوں کے مابین پائے جانے والے مسائل کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی روشنی میں حل کیا جائے۔ قرارداد میں لکھا گیا کہ فلسطین کی ریاست کو اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت کی حامل ریاست کا درجہ دیا جائے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ فلسطین کو اس وقت اقوام متحدہ میں ایک مبصر ریاست کی حیثیت حاصل ہے۔ قرارداد میں جنیوا کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ دونوں گروہوں کے لئے لازم ہے کہ وہ جنگ کے ادوار میں عام شہریوں کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ قرارداد میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ دونوں اقوام غیر قانونی اور یک طرفہ کارروائیوں سے باز رہیں اور ایسے امور سے پرہیز کریں، جس سے کشیدگی پیدا ہونے کا خطرہ ہے اور جو دو ریاستی فارمولے کے لئے نقصان دہ ہے۔

سیاست او ر سفارت کاری کی دنیا بہت گھمبیر ہے۔ لفظوں کا گھن چکر ہے جو سادہ ذہنوں میں نہیں سما سکتا۔ اس فن کے ذریعے آپ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ قرار دے سکتے ہیں، تاہم اسی کے ذریعے آپ نیک مقاصد تک بھی پہنچ سکتے ہیں، لہذا سیاست اور سفارت کے درست ہونے کا بنیادی معیار نیتوں کا درست ہونا ہے۔ سفارت کاری کی نظر سے دیکھا جائے تو مسئلہ فلسطین واقعی ایک بہت گھمبیر مسئلہ ہے، جس نے پورے عالم انسانیت کو چکرایا ہوا ہے۔ 1948ء سے تادم تحریر دنیا کے اعلٰی ترین دماغ اس مسئلے کے حل کے لئے کوشاں ہیں۔ اب ان اعلٰی دماغوں کو یہ سوجھا ہے کہ اس خطے میں دو ریاستیں قائم ہونی چاہئیں۔

ہمیں تو فقط اتنا معلوم ہے کہ دنیا کی سامراجی قوتوں نے ایک مکروہ منصوبہ کے تحت مشرق وسطٰی میں ایک ناجائز ریاست قائم کی، دنیا کے مختلف علاقوں سے ایک خاص مذہب کے پیروکاروں کو اس خطے میں آباد کیا گیا۔ اس ریاست کے وجود کو دوام بخشنے کے لئے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا گیا۔ پہلے پہل عرب جنگجو اس نئے وجود کے خلاف لڑے، تاہم جلد ہی ان کے تلوں میں تیل نہ رہا اور وہ سفارت کاری کے ذریعے رام ہوتے چلے گئے۔ وہ فلسطینی تنظیمیں جو اس ناجائز ریاست کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ میدان عمل میں اتریں تھیں، آخر کار ایک چھوٹے سے خطے پر جزوی اقتدار لے کر مطمئن ہوگئیں۔ قراردادیں، مسودے، فیصلے ناجائز ریاست کو جائز کرتے گئے اور اب نوبت بہ اینجا رسید کہ اپنے پرائے دو ریاستوں کی بات کر رہے ہیں۔
 
عام قاری کو تو یہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ یہ قرارداد جو ایک عرب ملک کی جانب سے پیش کی گئی اور جسے محمود عباس کی حکومت کی تائید حاصل تھی، فلسطینیوں کے مفاد میں ہے یا ان کے خلاف۔ اسی مخمصے کو سیاست اور سفارت کاری کی شاطرانہ شکل کہا جاسکتا ہے۔ میری طرح یقیناً آپ بھی حیران ہوں گے کہ وہ عرب ممالک جنھوں نے غاصب ریاست کے خلاف جنگیں لڑیں، کیا اس مقصد کے لئے لڑ رہے تھے کہ اس خطے میں دو ریاستیں قائم کی جائیں۔ حیرت اس بات پر بھی ہے دو ریاستوں کا قیام مسئلہ فلسطین کا حل کیسے ہوسکتا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ غاصب ریاست جو دنیا میں اسرائیل کے نام سے جانی جاتی ہے، کسی بھی مصدقہ ریاست اور اقوام متحدہ کی رکن مملکت کے خلاف جب چاہے چڑھائی کر دیتی ہے۔ عراق، لبنان ، شام پر اسرائیلی حملے اور لبنان و شام کے علاقوں پر قبضے کیا اسرائیل نے ہی نہیں کئے۔
دنیا کے اعلٰی ترین دماغ، سیاست دان اور سفارت کار کس ضمانت پر یہ سوچتے ہیں کہ فلسطین کی ریاست کے قائم ہوجانے سے یہ معاملہ حل ہوجائے گا۔

بہرحال فلسطینی ریاست کے قیام کی قرارداد ناکامی سے دوچار ہوگئی۔ عرب ریاستیں، ان کے اتحادی اور دنیا منہ تکتی رہ گئی، امریکہ نے اپنی ہی پیش کردہ تجویز یعنی دو ریاستوں کے قیام کی قرارداد کو ویٹو کر دیا اور اعتراض لگا دیا کہ قرارداد یک طرفہ ہے، اس میں نقائص ہیں۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ اب عرب لیگ اور قرارداد پیش کرنے والے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ کیا خاموشی ہوجائے گی، کیا عرب ریاستیں سفارت کاری کے عمل کو جاری رکھیں گی اور معاشی و سیاسی اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے موقف کو منوانے کے لئے امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں پر دباؤ ڈالیں گی۔ مسلح جدوجہد کو تقویت دی جائے گی۔؟
 
میری نظر میں یہ فقط فلسطینی ریاست کے قیام کی قرارداد کی ناکامی نہیں بلکہ آج انسانی حقوق کے عالمی ادارے ناکام ہوئے، منصفی ناکام ہوئی، محمود عباس ناکام ہوئے، عرب ریاستوں کی فلسطین پالیسی ناکام ہوئی۔ اسرائیل کی عالمی فورم پر یہ شاطرانہ فتح امت مسلمہ کا منہ چڑھا رہی ہے کہ ہم تمہیں وہ بھی اتنی آسانی سے نہیں دیں گے جس پر تمہیں لاکھڑا کیا ہے، تاہم اس شکست نے فلسطینی عوام کو جو پیغام دیا وہ بہت ہی خوش آئند ہے، آج فلسطینیوں کو معلوم ہوگیا کہ ہمیں ہمارا حق عالمی سطح کی سفارت کاری اور سیاسی کھلواڑ سے ملنے والا نہیں ہے۔ فلسطینی اسی طریقے سے آزادی، حقوق، ریاست اور حکومت حاصل کرسکتے ہیں، جس طریقے سے لبنان نے اپنے مقبوضہ علاقے واگزار کرائے۔ یہ اگرچہ مشکل اور کٹھن راستہ ہے، اس کے لئے قربانیاں درکار ہیں، جو فلسطینی پہلے سے دیتے آرہے ہیں، تاہم اس راہ سے بہت بہتر ہے جس میں چند لوگ عالمی ایوانوں میں جاکر سودے بازیاں کرتے ہیں اور نتیجتاً انہیں منہ کی کھانا پڑتی ہے۔
 
ایک وضاحت: میں نہیں کہتا کہ سفارت کاری کا عمل سرے سے ہی ترک کر دیا جائے۔ یہ کھیل جاری رکھیں، اسی کھیل کے نتیجے میں تو آج فلسطینی اس فیصلے پر پہنچے کہ ہمیں آزادی اور حقوق چھیننے ہوں گے۔ اس کھیل سے کم از کم دنیا کے باضمیر انسانوں پر واضح ہوگیا کہ اقوام متحدہ اقوام کے مسائل کے حل نہیں بلکہ ان میں اضافے کی ذمہ دار ہے۔ اسی کھیل نے فلسطین کے بہی خواہوں، نادان دوستوں نیز دشمنوں میں لکیر کھینچی۔ خدا مسلمانوں کو بالعموم اور فلسطین، کشمیر اور دنیا میں بسنے والے محکوم مسلمانوں کو بصیرت، استقامت اور صبر سے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(آمین)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button