بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے
تحریر: عرفان علی
مجھے اپنا بچپن یاد ہے، اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ دشمنوں سے نمٹنے کے لئے ایک ملی نغمہ بھی کافی ہوسکتا ہے۔ 1965ء کی جنگ سے لے کر آج تک پاکستانیوں کی اکثریت کو کسی اور بات نے اتنا متاثر نہیں کیا جتنا بعض ملی نغموں نے کیا۔ ملکہ ترنم نور جہاں ہوں یا استاد امانت علی خاں، ان کے گائے ہوئے قومی نغمے آج بھی نوجوان نسل پر اسی طرح اثر انداز ہیں جتنے وہ اس ماحول میں تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کے بعد آنے والے نغمہ نگار یا گلوکار اس محاذ پر غافل رہے، لیکن اے وطن پیارے وطن پاک وطن جیسے سدا بہار قومی نغمے جیسی دھوم کوئی ملی نغمہ نہیں مچا سکا۔ لیکن سانحہ پشاور نے ہمارے قومی شعور کو اس قدر جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ پھر دل کی گہرائیوں سے ایک ردعمل عزم مصمم نغمہ بن کر نکلا۔
آج پاکستان کا بچہ بچہ جو ایک نغمہ گنگنا رہا ہے، وہ یہی ایک نغمہ ہے جو سانحہ پشاور کے شہید طالبعلم بچوں کی یاد میں لکھا اور گایا گیا ہے۔ طالبان کے دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو اس ایک نغمے نے گویا شکست دے کر رکھ دی ہے۔ یہ پاکستانی بچوں کی طرف سے دہشت گردوں کو دیا جانے والا کھلا چیلنج ہے۔ ماضی کی جنگوں میں دشمن کو للکارنے کے لئے رجز پڑھی جاتی تھی، یہ اس دور کے بچوں کی صدائے ھل من مبارز ہے اور ان بچوں کو بزرگوں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ سانحہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے شہید بچے ہمارا اپنا خون تھے، اس لئے یہ رجز پوری پاکستانی قوم کی ترجمانی کرتی ہے۔
یہ نغمہ پاکستانی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے بعض افراد کی جانب سے تیار کیا گیا ہے، لیکن میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ 20 کروڑ پاکستانیوں کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ واقعی ہمارا خون تکفیری دہشت گردوں کے خلاف بہت اچھا لڑا۔ ہمارے خون نے آج کی کربلا کے حرملہ صفت دہشت گردوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ہمارے بچوں نے یزیدیت وقت کے اصل چہرے پر عالم انسانیت کو متفق کر دیا ہے۔ اب یزیدیت وقت کے بارے میں مختلف تشریحات نہیں اور کسی مکتب فکر میں اس نکتے پر اختلاف نہیں کہ پاکستان میں یزیدیت کا پیروکار کون ہے؟ اے ہمارے بچو! تمہارے مقدس خون نے دشمن کے حامیوں کو ایک مرتبہ پھر بلوں میں چھپنے پر مجبور کر دیا ہے۔
بتا کیا پوچھتا ہے وہ، کتابوں میں ملوں گا میں
کئے ہیں ماں سے جو میں نے، کہ وعدوں میں ملوں گا میں
میں آنے والا کل ہوں وہ مجھے کیوں آج مارے گا
یہ اس کا وہم ہوگا کہ وہ ایسے خواب مارے گا
تمھارا خون ہوں ناں، اس لیے اچھا لڑا ہوں میں
بتا آیا ہوں دشمن کو کہ اس سے تو بڑا ہوں میں
میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے
بڑا دشمن بنا پھرتا ہے، جو بچوں سے لڑتا ہے
وہ جب آتے ہوئے مجھ کو گلے تم نے لگایا تھا
امان اللہ کہاں! مجھ کو میرا بیٹا بلایا تھا
خدا کے امن کی راہ میں کہاں سے آگیا تھا وہ
جہاں تم چومتی تھی ماں، وہاں تک آگیا تھا وہ
میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے
بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے
مجھے جانا پڑا ہے پر میرا بھائی کرے گا اب
میں جتنا نہ پڑھا وہ سب میرا بھائی پڑھے گا اب
ابھی بابا بھی باقی ہیں، کہاں تک جاسکو گے تم
ابھی وعدہ رہا تم سے، یہاں نہ آسکو گے تم
میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے
بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے
ٓٓ(نوٹ: آج صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت سانحہ پشاور کے شہداء کا چہلم منا رہی ہے۔ یہ مضمون چہلم کی مناسبت سے لکھا گیا ہے۔ اگر آپ میری رائے سے متفق ہیں تو اپنی رائے کو خود تک محدود رکھنے کے بجائے یہاں اس کا اظہار فرمائیں۔ قارئین چاہیں تو درج ذیل لنک پر اس نغمے کو دیکھ اور سن سکتے ہیں:
http://www.dailymotion.com/video/x2execg_mein-aisi-qom-se-hoon-jis-k-woh-bachoun-se-darta-hai-bara-dushman-bana-phirta-hai-full-video-hd-1080_school