شہید ڈاکٹر نقوی کے کئے ہوئے کام آج بھی دشمن کیلئے موت کا پیغام ثابت ہورہے ہیں، علامہ امین شہیدی
شیعہ نیوز (کراچی) امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کے زیرِاہتمام سفیر انقلاب، بانی آئی ایس او، شہید ڈاکٹر سید محمد علی نقوی کی بیسویں برسی کی مناسبت سے خیرالعمل روڈ، انچولی سوسائٹی، کراچی میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں آئی ایس او کراچی کے سابق ڈویژنل صدور، سینیئر برادران سمیت امامیہ طلباء و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ سیمینار سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی، علامہ نقی ہاشمی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے رفیق خاص امجد کاظمی ایڈووکیٹ نے خطاب کیا، جبکہ دستہ امامیہ کے صاحب بیاض عاطر حیدر اور وسیم الحسن عابدی نے ترانہ شہادت پیش کئے، اس موقع پر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی حالات زندگی مبنی ڈاکیومنٹری پروجیکٹر اسکرین پر دکھائی گئیں۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے علامہ امین شہیدی نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی بہت ساری تنظیموں کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ خود اپنی ذات میں ایک تنظیم اور تحریک تھے، شہید ڈاکٹر کی تمام جدوجہد اسلام کی خدمت کیلئے انجام دی، ان کی تمام جدوجہد لوگوں کو امید مستضعفین جہان حضرت امام مہدی آخر الزمان (عج) سے متمسک کرنے کیلئے تھی، جس کے ظہور کی منتظر تمام کائنات ہے۔ علامہ امین شہیدی نے کہا کہ شہید ڈاکٹر نقوی ان عاشقان سید شہداء (ع) میں ہیں جنہوں نے شہادت کا انتخاب آگاہانہ و شعوری طور پر کیا، انہوں نے جس کربلائی انداز سے راہ خدا میں جدوجہد کی، زندگی بسر کی، اس کا لازمی نتیجہ آگاہانہ شہادت کی صورت میں ہی سامنے آتا ہے، خود شہادت نے بھی آگے بڑھ کر ڈاکٹر صاحب کا استقبال کیا۔ ڈاکٹر صاحب ان افراد میں سے ہیں، جنہوں نے آگاہانہ طور پر اس زندگی کا انتخاب کیا، جس کی انتہاء شہادت ہے۔
علامہ امن شہیدی نے کہا کہ شہید ڈاکٹر نقوی نے ایسے کاموں کو انجام دیا کہ جس کے نتیجے میں امام زمانہ (عج) کے سپاہی تیار ہوئے، شہید ڈاکٹر کے کاموں کے نتیجے میں جہاں ملت نے حیات پائی، وہیں ایسے افراد بھی معاشرے میں پروان چڑھے، جو اللہ کے دشمنوں کیلئے ننگی تلوار ثابت ہوئے، جنہوں نے آج تک دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچائی ہوئی ہے، جو آج بھی دشمن کیلئے موت کا پیغام ثابت ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شہید ڈاکٹر نقوی کی محنتوں میں سے ایک محنت کا ثمر ہے، لہٰذا شہید کے نظریاتی عاشقان، آئی ایس او کے جوانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شہید ڈاکٹر نقوی کی زندگی، انکے نظریات و افکار کی آگاہی حاصل کرتے ہوئے انکی راہ و مشن کو ہر قیمت پر جاری رکھیں، اور شہید ڈاکٹر نقوی کی مانند ظہور امام زمان (عج) ک راہ ہموار کرنے اور وطن عزیز پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کیلئے ہراول دستہ ثابت ہوں۔ علامہ امین شہیدی نے مزید کہا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب آئی ایس او کے مرکزی دفتر کے دروازے شہید ڈاکٹر صاحب کیلئے بند کر دئیے گئے، لیکن شہید نقوی نے اجتماعی زندگی کی ان آفات کے موقع پر بھی ایک شفیق باپ کی طرح بند دروازے کے پیچھے رہ کر بھی ہمیشہ گھر کی سلامتی اور حفاظت کیلئے جدوجہد کی، شہید ڈاکٹر نقوی نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس وقت بھی آئی ایس او کو مضبوط کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہید نقوی نے اس بات سے قطع نظر کہ کون مخالف ہے یا کون حامی، تنہا ہیں یا لشکر ساتھ ہے، کوئی ساتھ دے رہا ہے یا نہیں دے رہا، راہ خدا میں جدوجہد جاری رکھی، اللہ کی طرف سے عائد اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کیلئے میدان میں ثابت قدم رہے، یہاں تک کہ اس راہ میں اپنی قیمتی جان تک قربان کردی۔
علامہ نقی ہاشمی نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے ملت کو اپنے قیمتی ترین 22 سال دیئے، آئی ایس او کو پروان چڑھایا، تحریک جعفریہ، پاسبان اسلام بنائی، شہید فاونڈیشن بنائی، المصطفیٰ اسکولز بنائے، اس کے علاوہ بھی ان گنت ملی ادارے بنائے، لیکن نہ تو اپنی کوئی جائیداد بنائی اور نہ ہی کوئی بینک بیلنس، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے فعال ترین 22 سال ملت کیلئے دیئے، یہاں تک کہ اپنا پاکیزہ لہو بھی ملت کیلئے خدا کی خوشنودی کی خاطر بہا دیا، لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ شہید ڈاکٹر کے ملک بھر میں پھیلے لاکھوں نظریاتی عاشقان نے ان کیلئے سوائے ایک کتاب، ایک ٹوٹی پھوٹی ڈاکیومنٹری فلم، شہید ڈاکٹر کی چند تقاریر جو بری ریکارڈنگ پر مشتمل کیسٹس، سی ڈیز کی صورت میں ہیں، اس کے علاوہ کچھ خدمات انجام نہیں دے پائے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے افکار، نظریات، سوانح حیات پر کام نہیں کرینگے، کیونکہ اگر یہ تمام چیزیں معاشرے میں صحیح معنوں میں عام ہو گئیں، یعنی معاشرے میں عوام کو پتہ چل جائے کہ آئی ایس او کی قیادت ایسی ہوتی ہے، نظریاتی لوگ ایسے ہونے چاہئیں، تو شہید ڈاکٹر کے نظریاتی عاشق ہونے کے دعویداروں، ہمارے خود کیلئے مشکلات پیدا ہو جائیں گی، ہم اپنی زندگیوں اور فعالیت کے الٰہی ہونے کا صحیح معنوں میں جواز اور ثبوت پیش نہیں کر پائیں گے، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے کم وسائل و افراد، انتہائی زیادہ اجتماعی مشکلات و پریشانیوں کے ساتھ ناممکنات کو ممکن میں تبدیل کر دیا، جبکہ ہم تمام تر وسائل، آسانیوں، انقلابی علماء، مدارس، تنظیموں، آئی ایس او کے نوجوانوں کے باوجود شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی راہ کو صحیح معنوں میں آگے نہیں بڑھا پائے، یقیناً ہم کسی جگہ پر فکری و نظریاتی انحطاط کا شکار ہیں، جس کا خاتمہ شہید ڈاکٹر م
حمد علی نقوی کے افکار و نظریات کے مطابق آگے بڑھنے، جدوجہد کرنے میں پوشیدہ ہے۔
علامہ نقی ہاشمی نے کہا کہ اگر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنے پاکیزہ لہو سے آبیاری نہ کرتے تو آئی ایس او کا اپنے پیروں پر اس طرح سے کھڑے رہنا انتہائی مشکل تھا، لہٰذا ضروری ہے کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے افکار، نظریات، سوانح حیات کے حوالے سے آئی ایس او کا اصول بنائیں، راسخ قرار دیں کہ اسے پڑھے بغیر، جانے بغیر کسی نوجوان کو یونٹ، ڈویژن، مرکز سمت کسی بھی سطح کے عہدوں پر فائض نہیں کیا جانا چاہے، یہ تنظیم کیلئے بہت نقصان کا باعث ہے، ماضی میں اسکے نقصانات اٹھائے جا چکے ہیں، لیکن مستقبل میں ایسے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے، اور آئی ایس او کے الٰہی پلیٹ فارم سے معاشرے کو انتہائی مو¿ثر، نظریاتی اور پاکیزہ افراد دے سکتے ہیں۔ امجد کاظمی ایڈووکیٹ نے آخر میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کے واقعہ ساتھ ساتھ تدفین کے بعد کے مراحل پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ امجد کاظمی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس وقت معرکہ حق و باطل حقیقی طور پر کربلائی بن چکا ہے، اس وقت دیدہ و دانستہ باطل حسینیت سے ٹکرانا چاہتا ہے، باطل اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اصل مبارزہ حسینؑ کے ساتھ ہے، انہوں نے ہر قسم کی باطل قوتوں کو اکھٹا کیا ہے۔ امجد کاظمی ایڈووکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ داعش، بوکو حرام، طالبان، القاعدہ سمیت تمام باطل قوتیں مکر و فریب کی صورت میں ظاہر ہو چکی ہیں، لہٰذا آج پاکستان میں بھی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے نظریاتی وارثوں کو بھی پہلے سے زیادہ آگاہی و شعور کے ساتھ باطل و یزیدیت کے خلاف اپنی جدوجہد میں مزید تیزی لانی چاہیئے۔