مضامین

۲۰ اپریل ؛آرمی ڈے کے موقع پر مسلح افواج کے جوانوں سے امام خامنہ ای کا خطاب

۲۰؍ اپریل ؛آرمی ڈے کے موقع پر مسلح افواج کے جوانوں سے امام خامنہ ای کا خطاب
ایران نہ کسی کیلئے خطرہ ہے اور نہ کسی ملک میں دخالت دیتا ہے!
ترجمہ: سیدصادق رضا تقوی


بسم اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحیم
آپ تمام بھائی بہنوں خصوصاً خانوادہ ہائے شہدا کو خوش آمدید کہتا ہوں۔                                                                                                                                                                                      

آرمی ڈے ، امام خمینی ؒ کا تخلیقی کارنامہ ہے !

بے شک امام خمینیؒ کے اہم ترین اور تخلیقی کاموں میں سے ایک کا م’’آرمی ڈے‘‘کا منانا تھا۔اگر اِس امر کے محرکات کے بارے میں اُس زمانے میں ملک میں دشمنان وطن اور انقلاب کے اذہان میں موجود افکار کا جائزہ لیں تو ہم اچھی طرح یہ بات جان لیں گے کہ ایسی فضا میں آرمی ڈے کا اعلان نہ صرف یہ کہ ایک بہت مفید اور بڑا کام تھابلکہ لازمی اور ضروری بھی تھا۔شاید آپ میں سے بہت سے جوان ایسے ہوں کہ جنہیں یاد بھی نہ ہو یا وہ دنیا میں آئے بھی نہ ہوں کہ اُس زمانے میں خود فوج میں فوج کو نابود کرنے جیسے بہت ہی طاقتور اور خطرناک خیالات موجود تھے اوراِس کام کیلئے اُن کے پاس ایک سوچ و منطق بھی تھی اور فلسفہ بھی پیش کرتے تھے۔یعنی فوج میں ایسے عناص پائے جاتے تھے جو ایک نظریاتی اور توحیدی فوج کو نابود کرنے کیلئے کوششیں کر رہے تھے ۔امام خمینی ؒ ایسے افکار کے سامنے ڈٹ گئے ۔اُنہوں نے یہ تشخیص دی کہ فوج کو چاہیے کہ وہ میدان عمل میں طاقت و قدرت کے ساتھ موجود رہے اور اپنے کردار کو ادا کرے اور اُنہوں نے شاہ ایران کے طاغوتی زمانے میں لوگوں کو فوج سے جدا کرنے والے تمام عوارض کو زائل کر دیا ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری فوج صرف زبانی دعووں کے لحاظ سے نہیں بلکہ میدان عمل میں ایک انقلابی فوج کے عنوان سے باری رہی اور اپنے کردار کو ادا کیا۔

ہماری مسلح افواج کی نادر خصوصیات


الف: دینی بصیرت کا حامل اور شرعی اصولوں کا پابند ہونا

اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی ایک خصوصیت اُس کا انقلابی اور دینی بصیرت کا حامل ہونااوردینی اصول وقوانین کا پابندہونا ہے ۔یہ بہت بڑی بات ہے ۔دینی اصول و قوانین کے پابند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام مسلح افواج اور فوج فعالیتوں کیلئے اسلام نے جو میزان مقرر کیے ہیں فوج اُن سب کی پابند ہے ۔دنیا میں مختلف افواج جب تھوڑی سی کامیابی کو محسوس کرتی ہیں تو بے لگام اور منہ زور حیوان کی مانند وارد میدان ہوتی ہیں اور وہ ایسے کام انجام دیتی ہیں جو شرم آور ہیں اور ہم نے مختلف مقامات پر اِس کی مثالیں دیکھی ہیں۔یہ اُس وقت ہے کہ جب وہ پانی کامیابی کو محسوس کرتی ہیں تو اپنے سامنے آنے والے کسی بھی چھوٹے بڑے پر رحم نہیں کرتی ہیں اور جس وقت وہ اپنے آپ کو خطرات میں گھرا ہوا دیکھتی ہیں توتب بھی ایسے کام کرتی ہیں جو اسلام کی نگاہ میں حرام ہیں اور آج کے بین الاقوامی قوانین جنگ کی روشنی میں بھی جرم ہیں ۔

استکباری طاقتوں کی افواج کا حال!

البتہ یہ بات ضرور ہے کہ استکباری طاقتیں نہ بین الاقوامی قوانین کو کسی خاطر میں لاتی ہیں اور نہ ہی انسانی قوانین کا احترام کرتی ہیں ،وہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ممنوعہ اسلحہ بھی استعمال کرتی ہیں اور شہری آبادیوں اور سویلین کو نشانہ بناتی ہیں۔ جن جنگوں میں بھی امریکہ بالواسطہ یا بلا واسطہ شامل رہا ہے وہاں اِن جرائم کو کثرت سے دیکھاگیاہے!یہ ہے دنیا کی فوجوں کی حالت!

ب: خطرات میں ممنوعہ روش کا استعمال نہ کرنا

اسلامی جمہوریہ ایران می فوج اور اسلامی نظام سے وابستہ تمام مسلح افواج اسلامی قوانین کی پابند ہیں،یہ ایسی افواج ہیں جو نہ صرف یہ کہ کامیابی کے میدان میں طغیان نہیں کرتیں بلکہ شکست کے مواقع اور خطرات میں گھر جانے پر بھی ممنوعہ کام اور روشوں کا بروئے کار نہیں لاتیں۔ ہمارے سرحدی علاقوں کے شہرہو ں یا ملک کے اندر تہران، اصفہان جیسے دوسرے شہر ہوں، اِن پر صدامی میزائلوں کے وحشیانہ حملے ایک لمبی مدت تک جاری رہے۔یہ میزائل یورپی ممالک میں تیار کیے گئے تھے اور اُنہیں کے توسط سے فروخت کیے گئے تھے، امریکہ کے ذریعہ اِن میزائلوں کے مقصد و ہدف کومقرر کیا جاتا تھا۔ہمارے فوجی اور عس
کری تنصیبات اور مورچوں کی سیٹلائٹ کے ذریعہ تصاویر لی جاتی تھیں اور ۔یہ میزائل آتے اور ہمارے شہروں پر برستے اور ہمارے مظلوم اور بے گناہ عوام کا قتل عام کرتے ۔ کچھ مدت بعد ہم نے بھی یہ ٹیکنالوجی حاصل کر لی کہ اُن کی طاقت کے مطابق اُن کا مقابلہ کریں۔ ہم نے میزائل حاصل کیے اور ہم میزائل کو میزائل سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے مالک بن گئے ۔اگر ہم بھی چاہتے تو اپنے میزائلوں کی پہنچ میں آنے والے شہروں مثلاً بغداد پر میزائل برساتے ۔ لیکن امام خمینی ؒ نے کہا کہ اگر آپ کسی غیر فوجی علاقہ کو کہ جہاں فوجی چھاؤنی نہ ہو،نشانہ بنانا چاہتے ہیں تو پہلے ریڈیوسے عام اعلان کریں کہ ہم فلاں علاقے کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں تا کہ عام عوام وہاں سے چلی جائے!آپ ملاحظہ کیجئے کہ دنیا میں اِس قسم کی اخلاقی اور دینی پابندیاں معمول نہیں ہیں!

ہم ایٹمی اسلحے کا استعمال دینی حکم کے مطابق جائز نہیں سمجھتے!

بہت سے ممالک کی افواج کہ جہا ں تک مجھے علم ہے تقریباً تمام ہی ممالک کی افواج ایسی پابندیوں کو قبول کرنے والی نہیں ہیں۔دورِ حاضر میں اِس کی ایک زندہ مثال یمن میں آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں،اِس سے قبل فلسطین ، غزہ اور لبنا ن سمیت دنیا کے دوسرے ممالک میں آپ نے مشاہدہ کیا ہے ۔جہاں اِس قسم کے اسلامی قوانین کی پابندیاں رائج ہی نہیں ہیں لیکن اسلامی قوانین کی پابندی کرنے والی ہماری مسلح افواج اِن قوانین کی رعایت کرتی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے اور صحیح کہا ہے کہ ہم ایٹمی اسلحے کو استعمال نہیں کریں گے تو اِنہی اسلامی قوانین کی پابندی کی وجہ سے ہے۔یہ ہماری مسلح افواج کی خصوصیا ت میں سے ایک خصوصیت ہے !

ہم کسی ملک میں دخالت دینے والے نہیں ہیں!

آج ہمارے دشمن اسلامی جمہوریہ پر اِدھر اُدھر دخالت کرنے کا الزام لگا رہے ہیں جو سرے ہی سے بے بنیاد ہے اور حقیقت میں ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ہم کسی ملک میں دخالت نہیں کر رہے ہیں۔جہاں پر بھی ہم پر حملہ ہوتا ہے تو ہم پوری طاقت و قدرت سے اُس کا دفاع ضرور کرتے ہیں لیکن دخالت نہیں کرتے ۔ہم بے گناہ عوام ،سویلین اور عا م شہریو ں پر پر حملے کرنے والے،بچوں کوتہہ تیغ کرنے والے، خواتین کو نشانہ بنانے والے اور گھروں کو مسمار کرنے والے تمام افراد سے اعلان بیزاری اور برائت کرتے ہیں۔ ہم اُن سے متنفر ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں کہ جنہوں نے اسلام سے کچھ نہیں سیکھااور اپنے وجدا ن و ضمیر سے بھی کچھ حاصل نہیں کیا ہے ۔ہماری مسلح افواج کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اسلامی اُصولوں اورتمام جگہ رائج خدائی قوانین کے صلح ہو یا جنگ، پابند ہیں۔عوام میں ہماری مسلح افواج کی محبوبیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ یہ بھی ہماری طرح سوچتے، عمل کرتے اور عقیدہ رکھتے ہیں اور مسلح افواج کے دل بھی اُسی چیز کیلئے دھڑکتے ہیں کہ جس کیلئے عوام دردمند نظر آتی ہے تو یہ وہ چیز ہے جو عوام اور مسلح افواج کے درمیان اعتماد کے رابطے کو وجود میں بڑھاتی ہے ۔

دشمن کا ہر صورت مقابلہ کرنے کا اصول!

ہماری مسلح افواج کی ایک اور خصوصیت کہ جس کی جانب اُنہیں توجہ 
کرنے کی ضرورت ہے اور وہ متوجہ بھی ہیں جو اُن کے فکرو عمل سے مکمل آشکار بھی ہے وہ ’’اَعَدُّوْا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھبُوْنَ بِہِ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ‘‘ کی آیت پر عمل پیرا ہونا ہے ۔اِس آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ تم غافل گیر نہ ہوجاؤ،اگرتم پر دشن حملہ کرے تو تم اپنے پاس امکانات و وسائل اور اسلحہ کی کمی کی وجہ سے خسارے کا سامنا نہ کرو کیونکہ تمہارا نقصان قوم کا نقصان اور اسلام کا نقصان ہے۔اِس میدان میں ہماری مسلح افواج کی جو پیش رفت ہے وہ آئیڈیل ہے ۔خوش بختی ہے کہ ہمارا ملک ترقی اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے لحاظ سے دنیا میں ایک قابل قبول معیار تک مانا ہوااور ممتاز مقام کا حامل ہے اور ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر ترقی یافتہ افواج میں ترقی اور اسلحے کی پیش رفت نیز عسکری میدان کی مہارت کے حوالے سے ہماری مسلح افواج کا شمار برترین افواج میں ہوتا ہے۔ اِس تمام مدت میں ہم نے امکانات و وسائل اور عسکری شبعے میں تمام امکانات اور منابع کے کم ہونے کے باوجود جو ترقی کی ہے یہ سب اِس مختصر مدت میں اِن تمام محاصروں ، بائیکاٹ اور پابندیو ں کے ساتھ ایک بہت ہی مافوق العادت کام ہے !
ہم نے پیشہ ورانہ صلاحیتیں اور ٹیکنالوجی اپنی مدد آپ حاصل کی ہے!
خوش قسمتی سے ہماری مسلح افواج مختلف عسکری شعبوں میں خود وہ یا اپنی مدد آپ یا صحیح منصوبہ بندی اور علمی،تحقیقی اور ٹیکنالوجی کے مراکز کی مدد سے بڑے بڑے کام کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔جس چیز کی میں تاکید کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ عسکری شعبے، رزمی میدان اور اسلحہ و ٹیکنالوجی میں ملکی ترقی اور پیش رفت کو اِسی طرح اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے۔یہ وہ چیز ہے کہ جسے ہمارا دشمن نہیں چاہتا ہے۔عصر حاضر میں اسلامی جمہوریہ پر دشمن کے پرو پیگنڈے کے دباؤکے عوامل میں سے ایک عامل یہی مسئلہ یہ ہے ۔میزائل ہو یا ڈرون طیارے کا مسئلہ ہو یا فوجی و عسکری امکانات و وسائل سمیت وہ تمام چیزیں جو ہمارے جوان سائنسدانوں کی مدد سے بغیر کسی کی مدد کے حاصل ہو گئی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ یہ سب نہ ہوں اور اِس ترقی کا راستہ روک دیں۔ ایک صحیح اور عقلائی منطق آیہ قرآن کی روشنی میں ہم سے یہ کہتی ہے کہ اِسی راہ کو جاری رکھیں!

ہم اپنے دفاع کیلئے حاضر و تیار ہیں!

ہمارے مد مقابل دشمن ہمیں مسلسل ڈرا ڈھمکا رہا ہے ۔ کچھ دن ی
ہ خاموش تھے مگر اب کچھ دن قبل ان میں سے ایک نے منہ کھو ل کر دوبارہ فوجی اور مذاکرات کے معاملات میں بولنا شروع کر دیا ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ یہ غلط باتیں کہہ رہے ہیں اور غلطی کر رہے ہیں اور اُس کے بعد کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ اپنے دفاع کی طاقت سلب کر لے۔کیا یہ جو باتیں کر رہے ہیں بیوقوفانہ نہیں ہیں؟!اگر یہ ہمیں صراحت کے ساتھ بھی ڈراتے ڈھمکاتے نہیں تب بھی ہمیں چاہیے تھا کہ ہم ’’اَعَدُّوْا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ‘‘ کی آیت کے مطابق ہمیں اِس کی فکر کرنی چاہیے تھی یعنی اگر یہ میں ڈھمکاتے نہ بھی جب بھی ہم یہ مراقبت انجا م دیتے اور اپنی تیار میں مزید اضافہ کرتے ۔ اب تو وہ صراحت کے ساتھ ڈرا دھمکا رہے ہیں کہ میزائل نہ بناؤ، یہ نہ کرو، وہ نہ کرو اور مسلسل بیوقوفانہ بیانات صادر کیے جا رہا ہے ! جناب عالی ! ایسا ہر گز نہیں ہے ، سن لیں کہ سب سے پہلے اسلامی جمہوریہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے دفاع کیلئے جان لگا کر کوشش کرنے والا ہے ، ہماری پوری ملت ایک مشتِ محکم کی مانند جمع ہو جائے گی اور تجاوز کرنے والے ، حملہ آور اور غیر منطقی گفتگو کرنے والے کے سامنے سینہ سپر ہو جائے گی۔یہ ایک نکتہ ہے کہ دفاع کے معاملے میں ہماری ملتا ایک ہے اوروہ اِس بارے میں کسی چیز سے اثر نہیں لینے والی اور دوسرا نکتہ ی ہے کہ اسلامی جمہوریہ اپنے دفاع کیلئے آمادہ و تیار ہے اور ساتھ ساتھ اپنی تیاری کی حفاظت بھی کرنے والا ہے!

ہماری افواج ہمت و حوصلے کے لحاظ سے دنیا میں کم نظیر ہیں!

اسلامی جمہوریہ کی وزارتِ دفاع سے لے کر فوج کے تمام شعبوں سمیت ملک کے تمام ادارے اور محکمے اِس بات کو ایک دستور العمل کی حیثیت سے اپنے سامنے رکھیں اور اسلحہ ، ٹیکنالوجی ،پیشہ ورانہ مہارت میں اضافہ اورہر اُس میدان میں جس کی ہماری مسلح افواج کو ہمت و حوصلے کو بڑھانے کیلئے زیادہ ضرورت ہے،روز بروز اپنی دفاعی تیاری کو زیادہ سے زیادہ کریں ۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ اِس مسئلے میں ہمارا ملک، ہماری مسلح افواج اور ہمارے دلاور جوانوں کے پاس کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے اور ہم عزم آہنی اور ہمت و حوصلہ کے لحاظ سے کسی بھی چیز کی کمی محسوس نہیں کر رہے ہیں!جو چیز اسلامی انقلاب کا ہدف تھی، جو چیز ہم آرمی ڈے کی صورت میں مستقبل میں دیکھنا چاہ رہے تھے اور جو چیز سپاہِ پاسداران انقلابِ اسلامی کو وجود میں لانے کا سبب بنی کہ جس کی امام خمینی ؒ نے تدبیر کی تھی ،آج ہمارے سامنے موجود ہے یعنی آہنی عزم اور بلا کا ہمت و حوصلہ !ہماری مسلح افواج کے بہت سے جوانوں نے نہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کا زمانہ دیکھا ہے، نہ اُنہوں نے امام خمینی ؒ کی سیرت کو درک کیا ہے اور نہ انہوں نے جنگ میں ہمارے شہدا اور غازیوں کی شہامت و شجاعت کا مشاہدہ کیا ہے لیکن آج بھی میرے پاس فوج سے یہ خبریں آتی ہیں کہ وہ فداکاری اور جان کی بازی لگانے کیلئے ہمہ وقت آمادہ و تیار ہیں۔بری ،بحری اور ہوائی فوج کے جوان مختلف انداز سے پیغام دے رہے ہیں۔ہماری مسلح افواج میں سے ہر فوج کی یہ تیاری او ر ہمت وحوصلہ ہر امتحان، آزمائش اور کڑے وقت میں زیادہ ہو گی ۔اِس بنا پر ضروری ہے کہ بصیرت، صحیح سمت کو قائم رکھنے ،ہر ممکنہ حالات کیلئے لازمی تیاری ،روز افزوں ہمت وحوصلہ اوراسلحہ ٹیکنالوجی نیزرزمی اور عسکری شعبوں کی تیاری و مہارت اُن بنیادی کاموں سے تعلق رکھتی ہے کہ جس کی جانب ہماری مسلح افواج کو ہروقت توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

اسلامی جمہوریہ ایران نہ کسی کیلئے خطرتھا اور نہ ہے!

اسلامی جمہوریہ( ایران) کسی ملک کیلئے خطرہ نہیں ہے اور نا ہی ہم کبھی اپنے ہمسائے ممالک کیلئے خطرہ رہے ہیں تو دور دراز ممالک کی بات تو چھوڑ دیجئے!یہ وہ حقیقت ہے کہ جسے ہمارے ماضی قریب کی تاریخ واضح و ثابت کر رہی ہے۔حتی ہمارے کچھ ہمسایہ ممالک نے ہم پر تجاوز کیا جو حق ہمسائیگی کے منافی تھا، اُس وقت بھی ہم نے اپنا ہاتھ روکے رکھا ۔اسلامی جمہوریہ نے کسی ملک پر حملہ نہیں کیا اور نہ ہی کرے گا!لیکن اب امریکیوں اور اُس کے پس پردہ یورپیوں اور اُن کے کچھ دم چھلُّوں نے ایٹمی توانائی اور ایٹمی اسلحہ کے جعلی افسانے کا بازار گرم کر رکھا ہے تا کہ دنیا والوں کے سامنے اُنہیں یہ کہنے کا جواز مل جائے کہ ایران دنیا اور خطے کیلئے خطرہ ہے !

دنیا کیلئے سب سے بڑا خطرہ اور نا امنی امریکہ اور اُس کے حواریوں کی جانب سے ہے!

حقیقت تو یہ ہے کہ آج دنیا کیلئے سب سے بڑا خطرہ خود امریکہ ہے جو کسی روک ٹو ک اور وجدانی اور دینی پابندی کے بغیر جہاں بھی لازمی سمجھتا ہے بے وجہ کود پڑتا ہے اور نا امن دخالتوں کا موجب بنتا ہے !حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ نے دنیا کو نا امن بنا دیا ہے جبکہ ہمارے خطے میں نا امنی پھیلانے کا کام (اسرائیل کی )صہیونی حکومت کو ہے جو خطے میں زنجیر سے بندھا ہوا امریکی کتا ہے ۔انہوں نے مل کر دنیا کے امن و امان کو تباہ و برباد کر دیا ہے ۔ہم نے نہ دنیا کو نا امن کیا ہے اور نہ اپنے خطے کے امن کو خراب کیا ہے ، حتیٰ کہ ہم نے تو اپنے ہمسایہ ممالک کی بد رفتاری کو بھی بزرگواری سے تحمل کیا ہے!دنیا میں پھیلی ہوئی نا امنی دراصل بے لگام اور منہ زور طاقتوں کی وجہ سے ہے جو ہر جگہ اپنا تسلط جمانے کے خواب دیکھتی رہتی ہیں۔

امریکہ یمن کے واقعات میں ظالموں کا حامی و پشت پناہ ہے!

اگر آج یمن میں المناک واقعات رونما ہو رہے ہیں تو یہ امریکی ہیں جو ظالم کی حمایت کر رہے ہیں اور یہ مغربی ہیں جو ظالموں کے پشت پناہ ہیں ،بنا بریں یہ تمام نا امنی اِن کی و
جہ سے ہے ۔یہ ہیں (ظالم اور اُن کے پشت پناہ )جو مختلف ممالک میں گھس کر امن کو تباہ کر رہے ہیں،یہ ہیں جو انسانوں سے حق حیات چھین رہے ہیں اور نا امنی اِن کی وجہ سے ہے!اسلامی جمہوریہ ایران خود اپنے لئے اور دوسروں کیلئے امن وامان کو خدا کی ایک بہت بڑی نعمت تصور کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنے امن و امان کے دفاع کیلئے ڈٹی ہوئی ہے اور اُس کی حفاظت بھی کرنے والا ہے ۔یہ وہ حقیقت ہے کہ جسے ہماری تمام مسلح افواج کو چاہیے کہ وہ اِسے ایک نصب العین کے عنوان سے اپنے سامنے قر ار دیں کہ ملک، ملکی سرحدو ں اور عوام الناس کی زندگی کی حفاظت اور امن و امان ہمارا فریضہ ہے اور اِسی راہ میں ہمیں کوششیں کرنی ہیں!

اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ آپ جوانوں کو کامیابی کی توفیق عطا فرمائے!
والسلا م علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سید علی الحسینی الخامنہ ای

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button