آئی بی اے گریجویٹ سےشدت پسند' دیوبندیت تک؟
کراچی میں حالیہ بڑی دہشت گردی کے واقعات میں ‘پڑھے لکھے’ طلباء کے ملوث ہونے کے انکشاف پر تقریباً پورا ہی ملک اس وقت سکتے کی سی کیفیت میں ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ سانحہ صفورہ، سماجی کارکن سبین محمود کے قتل اور بوہری برادری پر حملوں میں ملوث ملزمان سعد عزیز، محمد اظفر عشرت اور حافظ ناصر ملک کے بڑے تعلیمی اداروں کے طلباء ہیں۔
وزیراعلیٰ کی پریس کانفرنس کے بعد ان ملزمان کے کئی دوستوں اور سابق ہم جماعتوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹس ٹوئٹر اور فیس بک کے ذریعے اپنی حیرت اور خوف کا اظہار کیا۔
سعد عزیز – ‘ایک اچھا طالبعلم’
ملک کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کے طالبعلم کا ‘تربیت یافتہ عسکریت پسند’ ہونا اور اس کی جانب سے شہر میں دہشت گرد کارروائیوں کے لیے مالی معاونت کیے جانے پر یقین کرنا بہت سے لوگوں کے لیے کافی مشکل ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق سعد عزیز نامی ملزم نے ملک کے معتبر تعلیمی ادارے آئی بی اے سے بی بی اے کر رکھا ہے اور اس نے قبول کیا ہے کہ وہ سبین محمود قتل کا ماسٹرمائنڈ ہے۔
سعد عزیز کے اعتراف پر ان کے سابق ہم جماعتوں کے لیے یقین کرنا کافی مشکل ہے۔ سعید عزیز کے ایک ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے شرط پر بتایا کہ سعد عزیز ایک بہت ہی اچھا طالبعلم تھا جو بعد میں مذہبی شدت پسند دیوبندیت کی تبلیغ کے زیر اثر آگیا،۔
انہوں نے بتایا کہ سعد عزیز نے ابتدائی تعلیم بیکن ہاؤس اسکول سسٹم سے حاصل کی جس کے بعد انہوں نے ایک اور مہنگے تعلیمی ادارے دی لائسیم اسکول سے اے لیولز کیا اور بعد ازاں آئی بی اے سے گریجویشن کیا۔
سعد کے ایک اور دوست بتاتے ہیں کہ وہ بہت ہی ٹھنڈے مزاج کا انسان ہے جس کا نہ صرف لڑکوں سے بلکہ لڑکیوں سے بھی میل جول تھا،لیکن شدت پسند دویبندی تبلیغی جماعت کے اثر اور ایک مذہبی دہشتگرد جماعت سپا ہ صحابہ کے طلبہ ونگ سے وابستگی کے بعد وہ یکسر تبدیل ہوگیا تھا۔
ایک بات جو میڈیا گروپ شائع نہیں کررہے ہیں وہ سپاہ صحابہ سے سعد عزیز کی وابستگی ہے،مذہبی شدت پسند کی جانب سعد عزیز سپاہ صحابہ کے طلبہ ونگ کو جوائن کرنے کے بعد مائل ہوا۔
‘وہ وقت کے ساتھ مذہبی ہوتا گیا’
آئی بی اے کے ایک سابق ہم جماعت بتاتے ہیں کہ سعد عزیز پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی سوچ حاوی ہوتی گئی۔ ‘ وہ کافی مذہبی ہو گیا تھا اور اس نے داڑھی بھی رکھ لی تھی لیکن کبھی بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ اسطرح قتل عام کر سکتا ہے۔ ہمارے لیے یہ بہت ہی حیران کن خبر تھی’۔
ان کے دوست کا مزید کہنا تھا کہ کوئی بھی عزیز کے اہلخانہ سے رابطہ کرنے میں ناکام رہا۔ ‘وہ کافی عرصے سے یونیورسٹی کے دوستوں سے رابطے میں نہیں تھا، بس کراچی لٹریچر فیسٹیول کے دوران اس کی کچھ آئی بی اے کے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی تھی’۔
عزیز کے ایک اور سابق ہم جماعت بتاتے ہیں کہ ‘عزیز شادی شدہ ہے اور ایک بچے کا باپ ہے۔ وہ سندھی مسلم سوسائٹی میں ایک ہوٹل ‘دی کیکٹس’ چلاتا تھا جو میکسیکن اور دیگر غیرملکی کھانوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے’۔
ان کے دوست کے مطابق ‘سعد بالکل بھی ویسا (عسکریت پسند) نہیں ہے۔۔۔یہ ناقابل یقین ہے۔ اس کا کردار بالکل بھی ویسا نہیں ہے۔ وہ ایک خاندان رکھنے والا انسان ہے’۔
وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق سعد عزیز عرف ٹن ٹن عرف جان سبین محمود قتل کیس کا ماسٹرمائنڈ ہے اور 2009 سے دہشت گرد سرگرمیوں کا حصہ ہے۔
قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ ‘سعد عزیز ایک تربیت یافتہ عسکریت پسند ہے جو کہ لٹریچر کی تیاری کا ماہر تھا جب کہ وہ شہر میں دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے فنڈز بھی فراہم کرتا تھا۔
قائم علی شاہ نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران یہ نہیں بتایا کہ گرفتار ملزمان کس تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں مگر سی آئی ڈی پولیس کے انچارج راجہ عمر خطاب کے مطابق یہ گروپ القاعدہ سے متاثر ہے۔
عمر خطاب کے مطابق انہیں اس گروپ تک پہنچنے میں 13 ماہ کا عرصہ لگا اور یہ سب گرفتار افراد ایک ہی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیچے ان افراد کی پروفائلز ہیں جو کہ سعدعزیز کے ساتھ گرفتار ہوئے۔
طاہر حسین
طاہر حسین منہاس المعروف سائیں نذیر عرف زاہد، عرف نوید عرف خلیل، المعروف شوکت اور المعروف موٹا میٹرکولیٹ، جو صفورا گوٹھ سانحے کا ماسٹر مائنڈ ہے، 1998ء سے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ یہ ایک تربیت یافتہ دہشت گرد ہے، جو بم بنانے اور آر پی جی-7 اور کلاشنکوف جیسے اسلحے کے استعمال کا ماہر ہے۔
اس نے ذاتی طور پر القاعدہ کے اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری سے کئی مواقعوں پر ملاقات کی تھی۔
طاہر حسین اسلامی جمعیت طلبہ کا سابق کارکن رہا ہے ۔
محمد اظفر عشرت
محمد اظفر عشرت عرف ماجد ایک انجینئر ہے، جس نے سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ آف ٹیکنالوجی سے ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ 2011ء سے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
محمد اظفر عشرت کو بم بنانے اور اس طرح کے بموں میں ٹائمرز کی طرز کے الیکٹرانک سرکٹس کے استعمال میں مہارت حاصل ہے۔
حافظ ناصر
ح
افظ ناصر عرف یاسر جس نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں ایم اے کیا تھا، 2013ء سے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ ناصر کو برین واشنگ اور ’جہادی ‘سرگرمیوں کے لیے لوگوں کو تیار کرنے میں مہارت حاصل ہے۔
ان دہشت گردوں نے صفورا گوٹھ قتل عام سمیت ڈیفنس میں سبین محمود کے قتل، فیروزآباد کے علاقے میں امریکی ماہر تعلیم ڈیبرا لوبو پر فائرنگ، نیوی کے افسر پر بم حملہ اور رینجرز کے بریگیڈیر باسط پر خودکش حملہ، ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد میں اسکول پر گرینیڈ حملے اور پمفلٹس پھینکنے، آرام باغ، نارتھ ناظم آباد، بہادرآباد کراچی اور حیدرآباد میں بوہری برادری کی ٹارگٹڈ کلنگ اور بم حملے، ایم ے جناح روڈ، آرام باغ، گلستانِ جوہر، نیپا چورنگی، نارتھ ناظم آباد اور نارتھ کراچی میں پولیس کی گاڑیوں پربم حملے اور گلستان جوہر، نارتھ ناظم آباد، نارتھ کراچی، شاہ فیصل کالونی اور لانڈھی میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹڈ کلنگ کا اعتراف کیا۔