مضامین

اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

تحریر: علی احمد نوری

 

سانحہ منٰی کے 20 دن بعد بروز بدھ بلتستان کے نامور عالم دین، عظیم اسکالر و محقق، بے مثال دانشور، زبردست خطیب، اتحاد امت مسلمہ کے داعی حجت الاسلام والمسلمین علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین کی سانحہ منٰی میں شہادت کی تصدیق ہوگئی۔ شہید منیٰ حجت الاسلام علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین 70 کی دہائی میں بلتستان کے نواحی گاؤں قمراہ اسکردو میں پیدا ہوئے۔ مرحوم کے والد ایک دیندار، دور اندیش اور سخی انسان تھے۔ شہید نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں قمراہ سے حاصل کی اور میٹرک کی تعلیم ہائی سکول نمبر ایک اسکردو سے حاصل کی۔ گورنمنٹ ڈگری کالج اسکردو سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ موصوف کا نام کالج کے پوزیشن ہولڈروں میں شامل ہوتا تھا۔ وہ سکول اور کالج کی تعلیم کے دوران ہر کلاس کے ممتاز طالب علم رہے۔ ان کے دوستوں کے بقول وہ شروع ہی سے اسلامی آداب کے پابند، محنتی اور عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ گریجویشن کے بعد غالباً 1998،99 میں اعلٰی دینی تعلیم کے لئے حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے محنت، لگن اور دیانتداری کے ساتھ کم وقت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ رواں سال 28 جنوری کو جامعۃ المصطفٰی العالمیہ قم سے انہوں نے اعلٰی نمبروں کے ساتھ پی ایچ ڈی مکمل کر لی۔ ان کے اساتید میں آیت اللہ العظمٰی جوادی آملی، آیت اللہ العظمٰی وحید خراسانی، آیت اللہ معرفت، آیت اللہ غلام عباس رئیسی، حجت الاسلام سید حامد رضوی، ڈاکٹر محمد علی رضائی، ڈاکٹر محمد حسن زمانی وغیرہ شامل ہیں۔

شہید شیخ فخرالدین نے حضرت آیت اللہ العظمٰی بہجت سے روحانی و عرفانی فیوضات حاصل کئے۔ حوزہ علمیہ قم میں علم اصول، علم فقہ، علم حدیث، علم رجال، فلسفہ، کلام، ادبیات عرب، علوم قرآن و تفاسیر اور دیگر علوم سے اپنا دامن بھر لیا۔ ظاہری علوم کے ساتھ انہوں نے اخلاقی، باطنی اور عرفانی کمالات کی طرف بھی بھرپور توجہ دی۔ حصول علم کے ساتھ تدریس و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ انہوں نے ملک بھر میں مختلف مقامات پر اخلاقی، تربیتی اور تبلیغی دروس کا بھرپور سلسلہ بھی جاری رکھا۔ شہید نےدرج بالا شعبوں کے علاوہ قومی اور اجتماعی میدان میں بھی زمانہ طالب علمی سے جام شہادت نوش کرنے تک بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہر میدان میں اپنی علمی اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کامیاب و کامران رہے۔ قومی، ملی اور مذہبی امور کی انجام دہی کی پاداش میں انہیں پس زندان بھی ڈالا گیا، مگر وہ آمر اور ظالم لوگوں کے سامنے کبھی نہ جھکے۔

شہید دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں انیس سو نوے اور اکیانوے میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن کے فعال صدر رہے۔ دو سال آئی ایس او پاکستان بلتستان ڈویژن کے ذیلی نظارت کے بھی رکن رہے۔ نوے کی دہائی میں جب تحریک جعفریہ عروج پر تھی، اس وقت تحریک جعفریہ بلتستان اسکردو کے جنرل سیکرٹری رہے۔ پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کے لوگ ان کی مدبرانہ، عالمانہ اور مبارزانہ زندگی کی وجہ سے ان کے گرویدہ تھے۔ وہ عمر بھر اتحاد بین المسلمین کے داعی رہے۔ تمام مسالک و مذاہب کے لوگوں نے ان کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا۔ موصوف کے پسماندگان میں والدہ، اہلیہ، چار بیٹے، دو بیٹیاں اور دو بہنیں شامل ہیں۔ سانحہ کے منٰی کے بعد سے کل شام تک پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان میں جگہ جگہ پر محافل دعائیہ کا سلسلہ جاری تھا۔ جب یکم محرم کے ساتھ ساتھ ان کی شہادت کی خبر سنی گئی تو پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان میں صف ماتم بچھ گئی، ہرطرف ایک کہرام مچ گیا۔ ہزاروں مرد و زن دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں اور قیامت کا سماں تھا۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
اس قومی سانحے پر مرحوم کے لواحقین اور امت اسلامیہ کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کرتا ہوں اور ہم شہید کے مشن کو زندہ رکھنے کا عزم کرتے ہیں۔ (شہید کے ساتھ بیس پچیس سالہ رفاقتوں کی داستانیں اور یادیں انشاءاللہ سلسلہ وار ضبط قرطاس لانے کی کوشش جاری رکھوں گا، تاکہ اس شخصیت کو ہر کوئی پڑھے اور مطالعہ کرے، تاکہ عملی زندگی میں کام آئے اور ہمار فریضہ بھی بنتا ہے کہ شہید کے افکار و نظریات اور خدمات کو زندہ رکھیں اور آنے والی نسلوں تک پہنچائیں)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button