دیر آید درست آید: تبلیغی جماعت پر پابندی ایک مستحسن قدم
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)پنجاب حکومت نے صوبے میں تعلیمی اداروں کیلئے نئی ایڈوائزری اور سکیورٹی پلان جاری کردیا۔چیف سیکرٹری خضر حیات گوندل نے ایڈوائزری اور سکیورٹی پلان پر عمل پیرا نہ ہونے والے تعلیمی اداروں کو سیل کرنے کا حکم دیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں سکیورٹی بہتر بنانے کیلئے نیا سکیورٹی پلان اور سکیورٹی ایڈوائزری جاری کئے گئے ہیں۔نئے سکیورٹی پلان کے مطابق پنجاب کے تعلیمی اداروں کی مساجد میں خطبات انتظامیہ کی منطوری سے دیئے جائیں گے ۔تبلیغی جماعت کے یونیورسٹیوں میں تبلیغ اور ٹھہرنے پر پابندی ہوگی ۔یونیورسٹی انتظامیہ دہشت گرد عناصر سے ہمدردری رکھنے والے فیکلٹی ممبران کی اطلاع فوری سیکیورٹی اداروں کو دینے کی پابند ہوگی ۔تبلیغی جماعت پر یونیورسٹیز کی حدود میں تبلیغ کرنے اور ٹھہرنے پر پابندی لگادی گئی ۔ایڈوائزری کے مطابق انتظامیہ کے تعاون سے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور ہوم ڈیپارٹمنٹ بورڈ اورسوشل میڈیا پر فرقہ واریت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرے گا۔
اگرچہ یہ بھی ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اس پابندی کا پس منظر کیا ہے اور تبلیغی جماعت کے وفود جنہیں وہ خود ”جماعت“ کہتے ہیں درسگاہوں میں کیا کارنامہ سرانجام دیتے رہے ہیں، جس کی بنا پر مجبور ہو کر اس پابندی کا اعلان کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ بھی اہم سوال ہے کہ تبلیغی جماعت کے علاوہ ملک کے تعلیمی اداروں میں مصروف عمل دیگر مذہبی سیاسی تنظیموں پر کیوں پابندی عائد نہیں کی گئی اور انہیں کیوں بدستور طالب علموں کے نام پر سیاست کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ تاہم اس سے پہلے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ تبلیغی جماعت کو کس کی اجازت سے تعلیمی اداروں میں داخل ہو کر طالب علموں کی علمی سرگرمیوں پر اثر انداز ہونے کی اجازت دی جاتی رہی ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں ہے بلکہ …. اب یہ بھی پتہ چل رہا ہے کہ تبلیغی جماعتیں مختلف اسٹوڈنٹس ہاسٹلز میں قیام بھی کرتی رہی ہیں۔ اس قیام کا مقصد بجائے اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ طالب علموں پر یہ واضح کیا جائے کہ وہ جس تعلیم کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے ان کی نجات ممکن نہیں ہے۔ اگر وہ مرنے کے بعد سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو اس پیغام پر غور کریں جو تبلیغی جماعت اپنے ہمراہ لے کر آتی ہے۔ بظاہر غیر منظم اور غیر سیاسی تبلیغی جماعت اس وقت دنیا کے 200 سے زائد ملکوں میں مراکز قائم کر چکی ہے۔ اس کے ماننے والوں کی تعداد بعض اندازوں کے مطابق ڈیڑھ کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان اس کے اہم مراکز ہیں تاہم یہ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور دیگر یورپی ملکوں کے علاوہ بیشتر ایشیائی اور افریقی ملکوں میں سرگرم ہے۔
مختلف ملکوں کے بااثر اور طاقتور لوگ اس تحریک سے متاثر ہیں۔ اسی طرح یہ خود کو غیر سیاسی قرار دینے کے باوجود سیاسی مفادات حاصل کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ جس طرح 2011 میں پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے جب رائے ونڈ مسجد کی تعمیر کے لئے 75 کنال سرکاری ارضی الاٹ کی تو اس سے کسی بنیادی اسلامی تعلیمات کو کوئی گزند نہیں پہنچی۔ تبلیغی جماعت اہم اور ضروری معاملات پر رائے ظاہر کرنے سے گریز کرتی ہے کیونکہ اس کا مؤقف ہے کہ یہ صرف انسان کی اصلاح اور ایمان کی مضبوطی پر توجہ دیتے ہیں۔ اس طرح ہر شخص کو خود اپنی برائی سے جہاد کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ لیکن عملی طور پر ”غیر سیاسی“ ہونے کا فیصلہ دراصل اہم ترین حکمت عملی ثابت ہؤا ہے۔ اس کی بنیاد پر اسے معاشرتی ، سیاسی اور تجارتی حلقوں میں وسیع اثر و رسوخ حاصل ہو سکا ہے۔ یورپ اور امریکہ نے بھی اس تحریک کی غیر سیاسی نوعیت کی وجہ سے ہی اسے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن اب تبلیعی جماعت کے غیر سیاسی چلن کے سیاسی ثمرات کئی حوالوں سے سامنے آ رہے ہیں۔ متعدد دہشت گردوں نے انتہا پسندی کا بنیادی سبق تبلیغی دوروں میں ہی حاصل کیا تھا۔
یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یہ جماعت دنیا سے گریز اور آخرت پر تکیہ کرنے کا جو سبق عام کرتی ہے وہاس طرح عملی طور پر یہ جماعت ترک دنیا کی تبلیغ کرتی ہے لیکن دنیا چھوڑنے کا یہ پیغام چونکہ مرنے کے بعد بہتر زندگی حاصل کرنے کی کاوش سے جوڑا جاتا ہے، اس لئے جو لوگ خود کش حملوں یا بم دھماکوں کے ذریعے جنت کا شارٹ کٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں بھی یہ پیغام حقیقت سے قریب دکھائی دیتا ہے۔ اس لئے انتہا پسندوں اور تبلیغی گروہوں کے درمیان تعلق ایک فطری امر ہے۔ زندگی ، دنیا اور اس کے لوازمات، خاندان، معاشرہ اور اس کے ڈھانچے سے فرار پر آمادہ کر کے اگرچہ تبلیغی جماعت بعض لوگوں کو ضرور عبادت اور ذکر الٰہی پر آمادہ کرتی ہو گی لیکن رد دنیا کے اصول کو عام کرنے کے بعد اس جماعت کے سربراہوں کے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں کو کنٹرول کر سکیں جو جنت کے مزے لوٹنے کی جلدی میں ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہ اصول ذہن نشین کرواتا ہے کہ اصل مقصد، حیات بعد از موت ہے۔ اس زندگی کا سوائے اس کے کوئی مقصد نہیں ہے کہ اسے مرنے کے بعد جنت حاصل کرنے اور بہشت میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی کوشش پر صرف کیا جائے۔