نواز شریف کے روحانی مرشد: اردگان کی تقلید نواز شریف کے تابوت میں آخری کیل
پاناما لیکس اور سول ملٹری تناؤ میں گِھرے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو ترک صدر رجب طیب اردگان کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ وزیر اعظم گزشتہ چند ہفتوں سے، اپنے مشیروں، کابینہ اراکین، مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں اور اتحادیوں سے مسلسل مشاورت کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مشاورتی اجلاس میں وزیر اعظم ایک سے زائد بار رجب طیب اردگان کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ کیسے انہوں نے طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی مخالفین کا سامنا کیا۔ ذرائع کے مطابق چند پارٹی رہنماؤں نے وزیر اعظم کو، اپوزیشن جماعتوں کے خلاف سخت موقف اپنانے سے بچنے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات اسطوار رکھنے کا مشورہ دیا۔ تاہم اپنے خاندان کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات، پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے حوالے سے 9 جماعتی اپوزیشن اتحاد اور آرمی چیف کے بلاامتیاز احتساب کے بیان کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے چند رفقا کا ماننا ہے کہ حکومت کو اپنے موقف پر قائم رہنا چاہیے۔
ترک صدر اردگان نے حال ہی میں اپنے کٹھ پتلی وزیر اعظم داؤد اوغلو کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا ہے اور اپنی اس خواہش کا صاف اعلان کیا ہے کہ وہ ملک میں صدارتی نظام استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اس مقصدمیں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے علاوہ یورپ کے ساتھ بھی تصادم کی پالیسی اختیار کی ہے۔ چند برس پہلے تک ترقی کی طرف گامزن ترکی فرد واحد کی مرضی و منشا کی تکمیل اور صدر اردگان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے چاروں جانب سے مشکلات میں گھرا ہؤا ہے۔ ایک طرف وہ یورپ اور امریکہ کے ساتھ متعدد امور پر تنازعہ کا شکار ہیں تو دوسری طرف روس کو بھی اپنا دشمن بنا چکے ہیں۔ ان سیاسی غلطیوں کے علاوہ ان پر کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے بے شمار الزامات ہیں۔ ایسے ہی الزامات کا شکار کوئی دوسرا لیڈر اگر اردگان کو اپنا رول ماڈل بنا کر ان کے نقش قدم پر چلنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو اس کی ناکامی اور روسیاہی کی پیشین گوئی کرنا مشکل نہیں ہے۔
صدر اردگان گیارہ برس تک وزیر اعظم رہنے کے بعد دو برس سے ملک کے صدر ہیں۔ اپنی پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی پر انہیں مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کے دور میں ترک فوج کو سیاست سے علیحدہ کیا گیا لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لئے ملک کے اسلام پسند عناصر نے دہائیوں طویل جد و جہد کی تھی اور بے شمار قربانیاں دی تھیں۔ اس لئے یہ تصور کرلینا کہ صدر اردگان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان میں بھی فوج کو سیاست سے فوری طور پر علیحدہ کیا جا سکتا ہے، ایک نئے افسوسناک تصادم کو آواز دینے کے مترادف ہوگا۔ نواز شریف اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے کرتا دھرتا ہیں لیکن مشکل وقت آنے پر یہی پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔ چند برس پہلے ہی وہ اس بات کا تجربہ کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ اگرچہ شریف خاندان نے پنجاب اور ملک پر لگ بھگ تین دہائیوں تک حکومت کی ہے لیکن اس میں فوج سے خود مختاری کی بنیاد پر حکومت کرنے کا عرصہ بہت قلیل ہے۔
پاناما پیپرز کی دوسری قسط سامنے آنے کے بعد اپوزیشن پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ اس بار اپوزیشن کے کئی لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی اپوزیشن باہمی چپقلش اور نامناسب حکمت عملی کی وجہ سے وزیر اعظم پر دباؤ بڑھانے میں ناکام ہو رہی ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم کو تحمل اور اعتماد سے اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن یا فوج کے ساتھ تصادم کی صورت میں حکومت یا جمہوریت کو کوئی فائیدہ نہیں پہنچ سکتا۔