Uncategorized

مدرسہ حقانیہ کی امداد دہشتگردی کیخلاف جنگ کمزور کرنے کے مترادف ہے، آصف زرداری

شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ )سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے تکفیری مدرسے دارالعلوم حقانیہ کے لیے عوامی فنڈز سے 30 کروڑ روپے مختص کیے جانے کے معاملے پر تشویش اور مایوسی کا اظہار کردیا۔

زرائع کےمطابق بلاول ہائوس سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں آصف علی زرداری نے کہا کہ مدرسہ حقانیہ تکفیری دہشتگرد گروہ طالبان سے تعلق کی بنا پر پہچانا جاتا ہے، اس لیے یہ امداد تکفیری دہشت گردوں کی حمایت اور اس کے خلاف جنگ کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مدرسہ حقانیہ نجی جہاد کو فروغ دینے کے لیے مشہور ہے، اس لیے یہ امداد،لک دشمن، اسلام دشمن کالعدم تکفیری دہشتگرد گروہوں کو جواز فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔آصف زرداری کا کہنا تھا کہ یہ رقم تکفیری دہشت گردوں اور دہشت گردی کی حمایت کرنے والے تکفیری مدرسے کے بجائے انسانی فلاح و ترقی کی منصوبوں پر خرچ کی جانی چاہیے تھی۔انہوں نے کہا کہ مدرسے کو یہ امداد اس وقت دی گئی جب تکفیری دہشتگرد گروہ تحریک طالبان پاکستان کراچی میں معروف قوال امجد صابری کے قتل کی ذمہ داری قبول کر رہے تھا۔سابق صدر نے کہا کہ نوشہرہ میں قائم دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ مولانا سمیع الحق ناصرف تکفیری دہشتگرد گروہ طالبان کے ہمدرد بلکہ ان کے غیر اعلانیہ ترجمان بھی ہیں۔

آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ 2014 میں حکومت اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان مذاکرات میں طالبان نے اپنی جانب سے مولانا سمیع الحق کو بطور مذاکرات کار نام دیا تھا، کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کئی طالبان دہشتگرد کمانڈرز اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان ڈرون حملے میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد یہ ظاہر ہورہا ہے کہ کچھ عناصر دوبارہ جہادی منصوبے کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ چند دنوں قبل پاکستان کے تکفیری دہشتگرد گروہوں اور انکی سہولت کاروں جماعتوں نے طالبان کے دہشتگرد امیر ملا اختر منصور کی ہلاکت پر اسلام آباد میں احتجاجی جلسہ کیا، جبکہ اب طالبان کے حمایتی تکفیری مدرسے کو 30 کروڑ روپے دیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ نیشنل ایکشن پلان ملک دشمن،ا سلام دشمن کالعدم تکفیری دہشتگرد گروہوں کو دوبارہ سر اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن اس کے باوجود ایسے تکفیری دہشتگرد گروہ دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں اور اپنے تکفیریت پسندانہ کے ایجنڈے کو دوبارہ کھلے عام فروغ دے رہے ہیں، تو کیا یہ سب خود ہورہا ہے یا جان بوجھ کر کیا جارہا ہے؟

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مشہور و معروف تکفیری درسگاہ دارالعلوم حقانیہ کے لیے بھی 30 کروڑ روپے مختص کیے تھے۔صوبائی حکومت نے رقم مختص کرنے کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مقصد تکفیری مدرسے کو مرکزی دھارے میں لانا ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں واقع اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ اور طالبان دہشتگردوں کے روحانی باپ مولانا سمیع الحق کے زیر انتظام چلنے والے تکفیری مدرسہ دارالعلوم حقانیہ ماضی میں اس وقت تنازع کا شکار رہا، جب اس کے تکفیری دہشتگرد طلباء پر سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل سمیت وطن عزیز پاکستان میں رونماں ہونے والے دیگر قومی سانحات میں ملوث ہونے کا الزام لگا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button