سندھ رینجرز کی بے اختیاری سے کراچی آپریشن رک گیا، شہر میں دہشتگرد کارروائیوں کا خطرہ
رپورٹ: ایس جعفری
شہر قائد میں سندھ رینجرز کو اپنے قیام کے ایک سال کی مدت اور 77 دن کے خصوصی اختیارات کی مدت ختم ہونے کے بعد اختیارات نہ مل سکے، جس کے بعدبے اختیار رینجرز کی جانب سے کراچی میں دہشتگرد اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن بند کر دیا گیا ہے، شہر کے خارجی و داخلی راستوں سمیت اہم مقامات سے ہٹ جانے سے دہشتگرد عناصر فائدہ اٹھا سکتے ہیں، شہر کا امن و امان خطرے سے دوچار ہو چکا ہے، جبکہ حساس اداروں نے بھی شہر میں ممکنہ دہشتگردانہ کارروائیوں کے پیش نظر سیکیورٹی الرٹ اعلیٰ حکام کو جاری کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ میں رینجرز کے قیام اور انہیں دہشتگرد و جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار اور حراست میں رکھنے کیلئے پولیس کی طرز پر دیئے گئے خصوصی اختیارات کی مدت 19 جولائی کی شب بارہ بجے ختم ہو جانے کے بعد رینجرز بے اختیار ہوگئی ہے، جس کے بعد اعلیٰ عسکری قیادت نے سندھ رینجرز کو کراچی شہر میں اپنی موومنٹ، ٹارگیٹڈ آپریشن سمیت تمام کارروائیاں عارضی طور پر روکنے کی ہدایت کر دی ہے اور شہر کے داخلی و خارجی راستوں، اہم و حساس مقامات، چوکیوں سے رینجرز اہلکاروں کو واپس اپنی رہائش گاہوں (بیرکس) منتقل ہونے کو کہا ہے، بعض اہم شخصیات کی سیکیورٹی سے بھی رینجرز اہلکاروں کو واپس بلا لیا گیا ہے، کیونکہ قانونی و آئینی طور پر کراچی میں رینجرز بے اختیار ہو چکی ہے۔ مدت کے آخری روز محکمہ داخلہ سندھ نے رینجرز کے چھاپوں، گرفتاریوں اور قیام کی مدت میں توسیع کی سمری وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو ارسال کی، تاہم وزیراعلیٰ نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
رینجرز کے اختیارات میں توسیع نہ ہونے سے سندھ بھر میں رینجرز کے تمام ونگز کو چھاپوں سے بھی روک دیا گیا ہے۔ رینجرز کو سندھ بھر میں انسداد دہشتگردی و کرپشن کے حوالے سے اہم گرفتاریاں کرنی تھیں اور پہلے سے گرفتار دہشتگردوں اور ملزمان کی نشاندہی پر اہم کارروائیاں بھی شیڈول تھیں۔ اس حساس صورتحال کے جاری رہنے کی وجہ سے کراچی شہر میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے، کیونکہ رینجرز اہلکاروں کے شہر کے خارجی و داخلی راستوں سمیت اہم مقامات سے ہٹ جانے سے ناصرف دہشتگرد عناصر فائدہ اٹھا سکتے ہیں، بلکہ کراچی آپریشن سے شہر میں بہتر ہونے والی امن و امان کی فضا کو دہشتگرد عناصر ایک بار پھر سبوتاژ اور شہر کراچی کی سڑکوں کو بے گناہ شہریوں کے خون سے نہلا سکتے ہیں، جو کہ ایک جانب دہشتگر و جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افزائی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنے گا، وہیں عوام اور بزنس کمیونٹی ایک بار پھر دہشتگرد عناصر کے رحم و کرم پر ہونگے، اور امن و امان کے ساتھ ساتھ شہر کی کاروباری و اقتصادی سرگرمیوں پر بھی کاری ضرب لگے گی۔ رینجرز کے بے اختیار ہونے اور کارروائیاں روکنے کے بعد ٹارگیٹڈ آپریشن کے نتیجے میں زیرإ زمین چلے جانے والے دہشتگرد و جرائم پیشہ عناصر پھر سرگرم اور منظم ہو سکتے ہیں، یا پھر باآسانی شہر سے فرار ہوکر اندرون سندھ روپوش ہو سکتے ہیں، جبکہ اندرون سندھ ممکنہ رینجرز آپریشن سے خوفزدہ دہشتگرد و جرائم پیشہ عناصر بھی صوبے سے سے فرار ہو کر ملک کے دوسرے حصوں میں روپوش ہو سکتے ہیں، اس کیساتھ ساتھ پھر اندرون سندھ اپنی جڑیں مضبوط کرکے کراچی سمیت سندھ بھر میں دہشتگرد کارروائیاں کر سکتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اندرون سندھ کی بعض بااثر سیاسی و مقامی شخصیات کے کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور دیگر جرائم پیشہ عناصر سے مضبوط روابط ہیں، جو دہشتگرد و جرائم پیشہ عناصر کو مکمل تحفظ فراہم کر رہے ہیں، اسی تناظر میں ممکن تھا کہ کراچی آپریشن کا دائرہ اندرون سندھ تک بڑھا دیا جاتا، اس حوالے سے چند روز میں اہم فیصلے بھی کر لئے جاتے، اور سندھ حکومت کو بھی اپنا قبلہ درست کرنے کا کہا جاتا، لیکن پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے کوشش کی کہ ناصرف رینجرز کو کراچی تک محدود رکھا جائے، بلکہ انہیں کرپشن مافیا کے خلاف بھی کارروائیاں کرنے سے روکا جائے، اسی وجہ سے وزیراعلیٰ سندھ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے اشاروں پر رینجرز اختیارات میں توسیع کی سمری پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں، جبکہ دوسری طرف حساس اداروں نے شہر کراچی میں دہشتگردوں کے دوبارہ فعال ہونے اور اپنے نیٹ ورک قائم کرنے کا سیکورٹی الرٹ اعلیٰ حکام کو جاری کر دیا ہے۔ بہرحال سندھ میں رینجرز کے قیام اور خصوصی اختیارات کے معاملہ پر مشاورت کیلئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال اور مشیر قانون مرتضیٰ وہاب کو دبئی طلب کر لیا ہے، جبکہ بلاول بھٹو بھی جمعہ کو دبئی روانہ ہونگے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس حساس صورتحال اور سنجیدہ معاملے پر پیپلز پارٹی اور اسکی سندھ حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے۔