موت کے بارے میں امیرالمومنین حضرت علی(ع) کی وصیت
اے اللہ کے بندو! میں تمہیں دنیا کے چھوڑنے کی وصیت کرتا ہوں جو تمہیں چھوڑ دینے والی ہے،
حالانکہ تم اسے چھوڑنا پسند نہیں کرتے، اور وہ تمہارے جسموں کو کہنہ و بوسیدہ بنانے والی ہے،
تمہاری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے چند مسافر کسی راہ پر چلے اور چلتے ہی منزل طے کر لیں، (یعنی بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جائیں)
دنیا کی عزت اور اس میں سر بلندی کی خواہش نہ کرو اور نہ اس کی آرائشوں اور نعمتوں پر خوش ہو، اور نہ اسکی سختیوں اور تنگیوں پر چختے چلانے لگو،
اس لیے کہ اس کی عزت و فخر دونوں مٹ جانے والے ہیں اور اسکی آرائشیں اور نعمتیں زائل ہو جانے والی ہیں اور اسکی سختیاں اور تنگیاں آخر ختم ہو جائیں گی، ھر زندہ کا انجام فناہ ہونا ہے،
کیا پہلے لوگوں کے واقعات تمہارے لیے کافی تنبیہ کا سامان نہیں، اور تمہارے لیے عبرت اور بصرت نہیں ؟
اگر تم سوچو سمجھو!
کیا تم گزرے ہوے لوگوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ پلٹ کر نہیں آتے اور انکے بعد باقی زندہ رہنے والے بھی زندہ نہیں رہتے،
اور تم دنیا والوں پے نظر نہیں کرتے جو وہ صبح شام کرتے ہیں:
کہیں کوئی میت ہے جس پے رویا جا ریا ہے،
کہیں کوئی مبتلاے مرض ہے اور عیادت کرنے والا عیادت کر رہا ہے
اور
کہیں کوئی دم توڑ رہا ہے۔ کوئی دنیا تلاش کرتا پھرتا ہے اور موت اسے تلاش کر رہی ہے اور کہیں کوئی غافل پڑا ہے لیکن (موت) اس سے غافل نہیں ہے،
گزر جانے والوں کے نقش قدم پر ہی باقی رہ جانے والے چل رہے ہیں۔
میں تمہیں منتبہ کرتا ہوں کہ بد اعمالیوں کے ارتقاب کے وقت ذرا موت کو بھی یاد کر لیا کرو کہ جو تمام لذتوں کو مٹا دینے والی ہے اور نفسانی مزوں کو کرکرا کر دینے والی ہے،
اللہ کے واجب الادا حقوق ادا کرنے اور اسکی ان گنت نعمتوں اور لا تعداد احسانوں کا شکر بجا لانے کے لیے اس سے مدد مانگتے رہو۔
حوالہ: نہج البلاغہ،