مضامین

’’مجھے شیعوں کی مخالفت سے شرم آتی ہے‘‘

خصوصی رپورٹ

میں سرگودھا سے بہاولپور جانے کیلئے بس پر سوار ہوا، سفر لمبا تھا لیکن بس نسبتاً بھتر اور آرام دہ تھی، جھنگ کے قریب کسی جگہ سے ایک شخص سوار ہوا۔ داڑھی لمبی، مونچھیں صاف، دیسی شلوار قمیض اور شلوار نسبتاً ٹخنوں سے کچھ اوپر۔ بس میں اگرچہ کچھ سیٹیں خالی تھیں لیکن چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ کوئی اس کو اپنے ساتھ والی سیٹ پر بٹھانا نہیں چاہ رہا تھا، ایسے میں، میں نے اس کو اپنے پاس بیٹھنے کی دعوت دی۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور احوال پرسی کے بعد معلوم ہوا کہ اس کا نام خالد فاروق ہے، دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے اور چند مرتبہ جہادی کیمپوں میں بھی جا چکا ہے۔ دوران گفتگو اس نے ایک جملہ بولا کہ جس سے میں چونک گیا، ’’مجھے شیعوں کی مخالفت سے شرم آتی ہے۔‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا آخر کیوں۔؟ تو فاروق نے جواب دیا! ایک دفعہ میں موٹر سائیکل پر کبیروالا جا رہا تھا کہ راستے میں میرا شدید ایکسیڈنٹ ہوگیا، ملتان پہنچنے تک میرا کافی خون بہ چکا تھا اور ڈاکٹر نے آپریشن کیلئے فوری خون کی ڈیمانڈ کی، لیکن نہ تو کوئی رشتے دار موجود تھا اور نہ دوست، اوپر سے خون کا گروپ بھی Negative O، جو بہت مشکل سے ملتا ہے۔ ڈاکٹر اور وہاں موجود باقی سب لوگ مایوس ہوچکے اور میں آہستہ آہستہ موت کی وادی کی طرف بڑھ رہا تھا۔! کہ ایک شخص جو غالباً کسی مریض کی تیماداری کیلئے آیا ہوا تھا، کسی نرس کی بات سے متوجہ ہوا اور بولا کہ میرے خون کا گروپ _O نیگیٹو ہے، فوراً اس نے اپنے ایک دوسرے دوست کو بھی فون کر دیا کہ جس کا گروپ یہی تھا اور چند منٹوں میں مطلوبہ خون کی مقدار مل گئی اور میں بچ گیا۔

ہوش آنے کے بعد جب اس ساری صورتحال سے باخبر ہوا تو اس فرشتہ صفت انسان کو جس نے مجھے قبر کی تاریک کوٹھڑی سے بچایا کی تلاش شروع کی، ملنے پر پتہ چلا اس کا نام غلام حسین اور اس کے دوست کا نام مرید عباس ہے اور ان کا تعلق شیعہ مسلم مکتب فکر سے ہے۔ اپنے اندر احساس ندامت کرنے لگا کہ جن کو آج تک کافر کہتا رہا، انکی وجہ سے آج اسلام کی تبلیغ کیلے زندہ ہوں۔ شرمندگی سے زمین میں دھنس جانے کو جی چاہ رہا تھا کہ جن کے بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کرنے والے اکابرین کے جلسوں میں ہم بڑے زور سے نعرے لگاتے تھے، آج اس نے میرے بچوں کو یتیم اور بیوی کو بیوہ ہونے سے بچا لیا۔ ہم جن کے ماں باپ سے بڑھاپے کا سہارا چھین کر انکی آنکھوں میں غم کے آنسوؤں کی برسات جاری کرتے تھے، آج ان کی وجہ سے میں اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھ رہا ہوں۔ جن کی زندگیوں کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح تھی، آج انہی کی وجہ سے میں زندہ ہوں، میری رگوں میں دوڑنے والا خون اسی نیاز حسین کے کھانے سے بنا ہے، جس کو کھانا حرام سمجھتا تھا۔ میں اپنی ہی نگاہوں میں گر گیا۔

جب اس دن کو یاد کیا کہ جب محلے کے ایک شیعہ نے نیاز کے چاول ہمارے گھر بھی بھجوائے تو میں نے ان کو نالی میں پھینکنے کی جسارت کی، لیکن اب کسی بھی جگہ کوئی بھی جب مجلس حسین کی مخالفت کرتا ہے تو مجھے یوں لگتا ہے کہ میرے خون کا قطرہ قطرہ ’’حسین ع، حسین ع‘‘ بول رہا ہے کہ یہاں حسینیوں کا ساتھ دے کر قرض اتارنے کا وقت آگیا ہے۔ اسی لئے میں اگرچہ شیعہ تو نہی ہوسکتا، لیکن اب مجھے ’’شیعوں کی مخالفت سے شرم آتی ہے۔‘‘ اس کی بات سن کر میں بھی سوچ میں پڑ گیا کہ اگر تمام ملک کے شیعہ روز عاشورہ کو خون حسینی بلڈ گروپ میں دینا شروع کر دیں تو نہ صرف لاکھوں لوگوں کی رگوں میں حسینی خون دوڑنے لگ جائے گا بلکہ اگر پوری دنیا میں شیعہ مسلمان دس محرم کو خون جمع کروانا شروع کر دیں تو پوری دنیا شیعیان حیدر کرار (ع) کے خون کی محتاج ہو جائے، اگر ریڈ کراس کی آڑ میں مسیحی تبلیغ کرسکتے ہیں، اگر وہابی حج کے موقع پر اپنے سابقہ طریقہ کار سے ہٹ کر جمع ہونے والا لاکھوں ٹن گوشت فریز کرکے بعد میں مختلف ملکوں میں بھیج کر وہابیت کی تبلیغ کیلے زمینہ ہموار کرسکتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں حسینیت کا پیغام عام کرنے کے لئے دس محرم کو خون جمع کرسکتے، یہ تبلیغ حسین (ع) کا وہ ایٹم بم ہے کہ جس دن تشیع کو سمجھ آگیا اس دن پورے جہان میں تشیع کا پیغام پہنچنے میں دنیا کی کوئی سعودی، اسرائیلی و امریکی طاقت رکاوٹ نہ بن سکے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button