مضامین

سعودی کفالت سسٹم بدترین غلامی کا دوسرا نام

تحریر: زہرا بخاری لاہور

جای سی رافائل ایک انڈین صحافی ہیں، تحقیقاتی صحافت میں ان کا نام انڈیا میں ایک معتبر حوالہ ہے، وہ پچھلے 38 سال سے شعبہ صحافت سے وابسطہ ہیں اور مختلف ممالک میں اپنے صحافتی فرائض انجام دے چکے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب سمیت مشرق وسطٰی کے اکثر ممالک میں صحافتی فرائض کی ادائیگی کے لئے مقیم رہے ہیں۔ جب وہ سعودی عرب میں اپنے صحافتی فرائض کے سلسلہ میں مقیم تھے تو انہوں نے انڈین مزدوروں پر مقامی کفیلوں کے مظالم کا نزدیک سے مشاہدہ کیا، اسی لئے انہوں نے ان مظلوموں کی آواز بننے کا فیصلہ کرتے ہوئے کفیل سسٹم کے خلاف قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور چشم دید واقعات کی بنیاد پر انہوں نے کتاب SLAVES OF SAUDIS لکھی۔ اس کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ سعودی عرب میں انڈیا سے کام کے لئے جانے والے لوگوں کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کفیل سسٹم پر تنقید کرتے ہوئے اس سسٹم کو دور جدید کی بدترین غلامی قرار دیا ہے۔ کفیل سسٹم کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں یہ قانون نہیں کہ روزگار کے لئے جانے والے غیر ملکی کا پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لیا جائے اور پاسپورٹ کے مالک کو کسی بھی طرح کی نقل و حرکت سے روک دیا جائے، حتٰی اگر اسے کسی ھنگامی صورت حال میں اپنے ملک جانا پڑے تو بھی اس کو نہ صرف پاسپورٹ واپس نہ کیا جائے بلکہ واپس جانے کے لئے اس سے خطیر رقم کا مطالبہ کیا جائے۔

لیکن آج کے بظاہر ترقی یافتہ دور میں سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک میں روزگار کے لئے آنے والے غیر ملکیوں کا پاسپورٹ ائیر پورٹ پر ہی کفیل اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور اس کے بعد انسانیت کی تذلیل کا نہ ختم ہونے والا سلسہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد کفیل درحقیقت روزگار کے لئے آنے والے لوگوں کی زندگی کا مالک ہوتا ہے۔ اس لئے کہ کفیل کی مرضی کے بغیر کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا اور ہر ماہ ایک خاص رقم کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی اپنی محنت سے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر لے تو کفیل دوکان پر آکر تمام رقم لے کر غائب ہو جاتا ہے اور کاروبار کرنے والا شخص بے چارہ مجبوری میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ اس صورت حال میں وہ مقامی پولیس کو بھی اطلاع کرتا ہے تو نہ صرف مقامی عدالت اسے کوڑے کی سزا دیتی ہے بلکہ دوبارہ اسی کفیل کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جو اسے بدترین تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ جای رافائل نے روزگار کے متلاشیوں کو درحقیقت سعودی عرب کا غلام قرار دیا ہے، جن سے سعودی جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں۔

اسلام ایک کامل و اکمل دین ہے، جو انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیتے ہوئے احترام انسانیت کا درس دیتا ہے، اسی طرح اسلام کسی بھی انسان پر ظلم کو گناہ عظیم سمجھتا ہے، لیکن ان حالات میں سعودی حکمران نہ صرف اسلام کے سنہری اصولوں کی دھجیاں اڑا رہے ہیں بلکہ پوری دنیا میں اسلام کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہم سعودی حکمرانوں کے تمام تر مظالم کو دیکھتے ہوئے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، جبکہ ایک ہندو صحافی کلی طور پر کفیلوں کے مظالم کے ستائے لوگوں کی آواز بن رہا ہے۔ ان حالات میں ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں یا ایک ہندو؟ ابھی تک سعودی عرب میں حاکم ظالمانہ کفیل سسٹم کے خلاف اسلامی ممالک میں سے کوئی آواز نہیں اٹھی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سعودی عرب نے مالی طاقت کے بل بوتے پر ہر اسلامی ملک میں پراکسی وار مجاہدین پال رکھے ہیں، جو حرمین شریفین کی حرمت کو بنیاد بنا کر سعودی حکمرانوں کے تمام تر کرتوتوں پر نہ صرف پردہ ڈالتے ہیں بلکہ ان کو اسلام کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔ جای رافائل کی آواز کتنی توانا ہے اور اس نے کفیلوں کے ستائے ہوئے لوگوں کی مشکلات کو کہاں تک کم کیا، اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا، لیکن ایک ہندو نے مظلوموں کی خاطر آواز اٹھا کر درحقیقت اسلام کے حکم پر عمل کیا ہے، وہ حکم جس پر عمل کرتے ہوئے مسلمان گھبراتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button