مضامین

مسلم ممالک کا اتحاد اور برمی مسلمان

تحریر: سید دلاورجعفری

ابتداء میں پاکستان سمیت کچھ ممالک نے اس اعلان پر حیرانگی کا اظہار کیاتاہم بعد میں سبھی نے رضا مندی ظاہر کردی اور مزید کئی ممالک نے بھی اس اتحاد میں شامل ہونے پر آمادگی کرلی اور اب اس نام نہاد اتحاد کے ارکان کی تعداد 41بتائی جارہی ہے ۔

اتحاد کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد سعودی عرب کی راجدھانی ریاض میں اس کا مشترکہ آپریشن سنٹر بھی قائم کردیاگیااورپھر6جنوری 2017کوپاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو اس اتحاد کے فوجی کمان کا کمانڈر ان چیف مقرر کیاگیاجنہوں نے ملک میں رائے عامہ منقسم ہونے کے باوجود عہدہ قبول کرلیا اور نئی ملازمت کی خاطر سعودی عرب روانہ بھی ہوگئے ۔

جہاں کچھ حلقوں کی طرف سے ایران ، عراق ، شام جیسے ممالک کو اتحاد کا حصہ نہ بنائے جانے پر سعودی حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بنایاگیاوہیں امریکہ نے اس کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اسے سنی نیٹو کانام دیا اور امریکہ کا مقصد اس اتحاد کوایران کے خلاف استعمال کرناتھاتاہم ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔نہ اِدھرکے رہے نہ اُدھر کے رہے ‘‘کے مصداق یہ اتحاد اپنے مقاصد پورے کرنے کے بجائے اِدھر اُدھر بھٹک گیا اور نہ ہی شدت پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کیا جاسکا اور نہ ہی مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ ۔

دہشت گردی اور شدت پسندی میں داعش جیسے خونخواروںسے بڑا کوئی ہدف نہیں ہوسکتالیکن اتحاد کو قائم ہوئے لگ بھگ دو سال ہونے کو ہیں اور اس درندہ صفت اور تکفیری گروہ کامقابلہ کرنے کے بجائے جہاں تک ہوسکا ،اتحاد کے قائدین اوراس کے ہمنوائوں نے دہشت گردعناصر کو بچانے اور انہیں محفوظ راستے فراہم کرنے کی کوشش کی ۔شام اور عراق میں سرگرم ان دہشت گردوں کو شکست فاش ہونے پر سعودی عرب اور اس کے پٹھوئوں نے واویلا مچایا اور انسانی حقوق کے نام پر کبھی حزب اللہ ، کبھی حشد الشعبی اور کبھی دیگر مزاحمتی قوتوں کو الزامات کی زد میں لایاگیا ۔

اس اتحاد کے اہداف تب واضح ہوگئے جب سعودی عرب ، بحرین ، مصراور متحدہ عرب امارات نے عرب دنیا کے امیر ترین ملک قطر کی ناکہ بندی کی اور اسے بحران سے دوچار کرنے کی کوشش کی ۔اس وقت قطر کے سامنے رکھی گئی 13شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ وہ صہیونی حکومت کے خلاف بر سرپیکار فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے ساتھ تعاون ترک کرے۔

اس شرط کے سامنے آتے ہی پوری دنیا پر یہ آشکار ہوگیاکہ یہ اتحاد دراصل مسلمانوں کے مفادات کوتحفظ دینے نہیں بلکہ انہیں نقصان پہنچاکر صہیونی اور سامراجی خوشنودی حاصل کرناچاہتاہے اوراس کا قیام صرف اس لئے عمل میں لایاگیاہے تاکہ سعودی عامرانہ نظام کوبرقرار رکھاجاسکے اور اس ملک کے شہزادوں کو کوئی گزند نہ پہنچنے پائے ۔

پچھلے دو سال میں ایسے کئی مواقع آئے جب مسلم قوم کو اس اتحاد کی ضرورت پڑی لیکن ہر بار اتحاد نے مسلمانوں کے مفادات کے منافی کام کرکے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ۔حالیہ عرصہ میں برمی حکومت نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رخائن صوبہ میں رہ رہی مسلم آبادی پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے جس کے نتیجہ میں اب تک لگ بھگ چار لاکھ مسلم افراد ملک چھوڑ کر کٹھن راستوں سے گزر کربنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ مسلمانوں کے نام پر بنے اس اتحاد کو اس ظلم و بربریت اورہجرت کا علم تک نہ ہوا اور اس نے اپنے کانوں جوں تک رینگنے نہیں دی۔

یہاں یہ بات ذہن میں جاگتی ہے کہ مسلمانوں کے نام پر بننے والے اس اتحاد کی اس سے بڑھ کر سامراج نوازی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جب بدھ بلوائی اور برمی حکومت مسلمانوں کو تہہ تیغ کریں تو سبھی خاموشی اختیار کرلیں اور جب حماس کی طرف سے ناجائز طور پر قائم ہوئی اسرائیلی ریاست کو خطرہ ہوتو اس مزاحمتی تنظیم کی حمایت کرنے والے ممالک سے تعلقات بحال کرنے کیلئے یہ بات بطور شرط رکھی جائے کہ وہ اس مزاحمتی تنظیم سے تعاون ترک کریں ۔دراصل یہ اتحاد یمن کے مظلوموں پر وحشیانہ بمباری کرنے ، فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی ظلم و ستم کو جوازیت بخشنے ،بحرین میں مظالم بڑھانے اور ایران ، عراق ، شام و لبنان میں سرگرم مزاحمتی قوتوں کوسامراجی و صہیونی تابعدار بنانے کے مقصد سے قائم کیاگیاہے تاہم خدا کرے گاکہ اس کے مقاصد کبھی پورے ہی نہیں ہوں گے اور اتحاد کی آڑمیں مذموم مفادات دنیا پر آشکار ہوتے جائیں گے۔

مسلمانوں کو ایسے کسی بھی اتحاد کی ضرورت نہیں ہے جو وقت پر ان کے کام نہ آسکے ۔جو اتحاد ظلم کاشکار برمی مسلمانوں کی مدد نہ کرسکے ایسے نام نہاد اتحاد سے لاکھ درجہ بہترتنہائی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button