بغداد میں پھر سے دھماکے ہونے لگے
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ )
گزشتہ پیر کے روز عراقی دارالحکومت بغداد ایک بار پھر دھماکوں سے لرز اٹھا ،عراقی وزارت داخلہ کے مطابق ان دھماکوں میں 80 افراد شہید اور زخمی ہوئے،مزید براں یہ دو دھماکے تھے اور دونوں ہی خودکش تھے۔
اس سے قبل بھی گزشتہ ہفتے کے روز بھی بغداد میں دھماکہ ہوا تھا جس میں گورنر بغداد ’’ریاض العفاض‘‘ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی العفاض تو بال بال بچ گئے البتہ ان کی حمایت پر مامور متعدد گارڈز شہید ہوگئے۔
بغداد میں ہونے والے حالیہ دھماکوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عراق میں سرگرم دہشت گردوں نے عراق بھر میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد اب ایک نئی حکمت عملی اختیار کر لی ہے۔
عراق میں بظاہر تو داعش کی نام نہاد دولت اسلامیہ کا خاتمہ کر دیا گیا ہے مگر داعشی اب بھی عراق میں سرگرم اور اپنی نام نہاد ریاست کو پھر سے بحال کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور بطور ثبوت ،بغداد میں ہونے والے دھماکے ایک واضح مثال ہے۔ان دھماکوں سے کئی اہم حقائق ثابت ہوتے ہیں۔
ایک تو یہ کہ عراق میں داعش کے خلاف جنگ اب بھی جاری ہے،درست ہے کہ داعش کا بطور تنظیم خاتمہ ہوچکا ہے ،البتہ داعش سے وابستہ دہشت گرد اب بھی عراق کے مختلف شہروں میں سلیپنگ سیل کی شکل میں موجود ہیں جو کہ انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ عراق میں سرگرم دہشت گردوں کو دہشت گردی کے حامی ممالک اب بھی ساتھ دے رہے ہیں اور انہیں حملوں کیلئے فنڈز فراہم کر رہے ہیں۔
تیسری حقیقت یہ ہے کہ عراق کے ان دھماکوں میں ایسے ممالک ملوث ہیں جو عراق کے خیر خواہ نہیں۔عراقی فورسز نے بلاشبہ داعش کو ختم کرنے کے لیے انتھک محنت کی اور بہترین کارکردگی دکھائی ،البتہ اب عراقی فورسز کو داعش کے خلاف ایک اور جنگ لڑنی ہے جو کھلے میدان میں نہیں بلکہ گلیوں ،عمارتوں ،گھروں اور نہ جانے کہاں کہاں چھپے داعشی دہشت گردوں کے خلاف لڑنی ہے جو کہ میدان جنگ سے زیادہ مشکل ہے۔عراق میں وقفے وقفے سے اس طرح کے دھماکے مزید ہوں گے جس کے لیے عراقیوں کو تیاری کر لینی چاہیے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ نام نہاد دولت اسلامیہ کو شکست دینے والی عراقی عوام داعش کے ان چھپے دہشت گردوں سے کب تک نمٹے گی اور دہشت گردی کی اس نئی لہر کو کس طرح ختم کر دے گی۔