کیا یہ قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستان ہے ؟
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں منگل کو ہدف بنا کر قتل کیے جانے والے سکھوں کے مذہبی رہنما چرن جیت سنگھ اکثر اوقات مذہبی رواداری اور امن کے فروغ کے لیے ہونے والے پروگراموں میں سرگرم اور پیش پیش رہا کرتے تھے۔پشاور میں سکھ برادری کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ چرن جیت سنگھ کو منگل کو پشاور کے علاقے سکیم چوک میں اپنے دوکان میں مسلح حملہ آور نے پستول سے فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔انھوں نے کہا پولیس کے مطابق واردات میں سائلنسر والے پستول کا استعمال کیا گیا ہے کیونکہ قریبی دکانوں میں کسی کو فائرنگ کی آوازسنائی نہیں دی۔ انھیں اس وقت واقعے کا علم اس وقت ہوا جب سکھ رہنما کی موت ہو چکی تھی۔مقتول پشاور میں سکھوں کے سرگرم مذہبی رہنما تھے اور ان کے میڈیا کے نمائندوں سے بھی بڑے اچھے اور قریبی مراسم تھے۔اپریل 2014 میں خیبرپختونخوا میں سکھوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا تو میں اس ضمن میں ایک رپورٹ بنانے کے لیے پشاور میں سکھ برادری کے مرکز محلہ جوگن شاہ کے گوردوارہ پہنچ گیا۔ یہاں مجھے چرن جیت سنگھ ملے جس نے گوردوارے میں ہمارا استقبال کیا۔ میں نے ان کا ٹی وی اور ریڈیو کے لیے مفصل انٹرویو بھی کیا۔ اس انٹرویو کے کچھ حصے اس وقت میرے سامنے موجود ہیں۔
چرن جیت سنگھ نے اس وقت کہا تھا کہ ’پاکستان ہمارا ملک ہے، ہمارے آبا و اجداد یہاں رہتے آئے ہیں، پھر خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقے تو ہمارے اپنے گھر ہیں، یہاں ہم پلے بڑھے ہیں یہ ہماری اپنی مٹی ہے لیکن افسوس یہاں ہمارے ساتھ بہت برا سلوک ہو رہا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا تھا اگر سکھ باشندے اپنی پیدائش کے مقامات میں بھی محفوظ نہ ہوں تو پھر وہ کہاں جائیں یہ ملک چھوڑ دیں یا کیا کریں۔
’ہم پہلے بھی یہ واضح کر چکے ہیں کہ ہم کسی دوسرے ملک سے ہجرت کر کے نہیں آئے بلکہ ہم اسی ملک کے باشندے ہیں اور ہمارا جینا مرنا بھی یہاں ہے۔‘بنیادی طورپر چرن جیت سنگھ کا تعلق قبائلی علاقے کرم ایجنسی سے تھا لیکن وہ گذشتہ 27 برسوں سے خاندان سمیت پشاور میں مقیم تھے۔ وہ سکھوں کے مذہبی مبلغ بھی تھے۔پشاور کی سکھ برادری مذہبی بھائی چارے کے فروغ کے لیے پشاور میں رمضان کے مہینے میں غریب اور نادار مسلمانوں کے لیے مفت افطاری کا اہتمام کرتی آئی ہے اور یہ سلسلہ گذشتہ تین سالوں سے جاری ہے۔مقتول چرن جیت سنگھ اکثر اوقات اس مہم میں پیش پیش ہوتے تھے۔ سکھوں کے مخیر افراد شہر کے مختلف علاقوں میں دستر خوان لگا کر ہر رمضان کے دوران چار سے پانچ مرتبہ مفت افطاری کا انتظام کیا کرتے تھے جس میں شہر بھر کے غریب مزدور شرکت کرتے تھے۔تاہم سکھوں کے نمائندوں کے مطابق اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافے کے باعث اس سال ان افطاریوں کی ذرائع ابلاغ پر زیادہ تشہیر نہیں کی گئی۔پشاور میں سکھوں کے ایک نوجوان رہنما باباجی گورپال سنگھ کا کہنا ہے کہ تمام اقلیتوں کے افراد ہر وقت گھر کے اندر، باہر یا کام کی جگہ پر ڈر اور خوف کی حالت میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔انھوں نے بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے مطالبہ کیا کہ سکھوں کے خلاف جاری تشدد کے واقعات کا فوری طورپر نوٹس لیا جائے اور انھیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ادھر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر چرن جیت سنگھ کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی جارہی ہے اور صارفین کی طرف سے سکھ برادری کے ساتھ اظہار تعزیت کیا جارہا ہے۔
خیبر پختونخوا میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ رخشندہ ناز نے فیس بک پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ’چرن جیت سنگھ کی سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات ادا کرنی چاہیے تھیں کیونکہ مذہبی راوداری اور امن کے فروغ کے لیے ان کی خدمات گراں قدر رہی ہیں۔‘ایک اور صارف سید حسن علی شاہ نے لکھا ہے کہ ’چرن جیت سنگھ کو مسلمانوں کےلیے افطاری کا انتظام کرنے کی سزا دی گئی اور کسی مذہبی رہنما نے اس انسان دوست شخص کو قتل کرنے کی مذمت تک نہیں کی۔‘سماجی کارکن ثنا اعجاز نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’چند دن پہلے ہم نے سنا کہ انڈیا میں ایک سکھ فوجی نے ایک مسلمان کو مشتعل ہجوم سے بچایا اور کل ہم نے پشاور کے مضافات میں دیکھا کہ ایک سکھ رہنما کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔‘