مضامین

اسرائیلی ہمسفر

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)تحریر: ڈاکٹر شریف ولی

ہمارا عید اور چائنیز کیلئے Dragon Boat Festival کی چھٹیوں پر Hebei صوبے کے خوبصورت ترین ساحلی شہر Qin Huang Dao جانے کا پروگرام بنا، جو کہ بیجنگ سے چھ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اُس رات بیجنگ واپسی پر Thang Shan شہر سے آگے ٹرین میں اتفاقاََ ایک اسرائیلی مسافر کی نشست ہمارے ساتھ تھی۔ ٹرپ پر ہم تین دوست ساتھ تھے، اب چوتھا بھی شامل ہوگیا۔ یہ چوتھا اسرائیلی شہری تھا، جس کیساتھ مشرق وسطیٰ خصوصاََ فلسطین کے ایشو پر کھل کر بات کرنے کا موقع ملا۔ Yoda (یہودا) بتا رہا تھا کہ سینیئر ہائی سکول کے بعد انہوں نے تین سال تک اسرائیلی ائیر فورس میں کام کیا۔ جس کے بعد اس نے ایک کمپنی جوائن کی اور آجکل چائینہ میں بزنس ٹرپ پر ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی سیاست پر کھل کر گفتگو کا آغاز اسوقت شروع ہوا جب ہمارے ایک چائنیز ساتھی نے اس سے زندگی کے تلخ ترین دن کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کارگل شہر میں گزرنے والی رات کا ذکر کیا۔۔۔۔۔ اس کے بعد سارا راستہ گویا میں اور یودا کسی ٹاک شو میں تھے، جبکہ تلخ و شیرین مکالمے کے دوران میرے دو چائینیز دوست آبزرور بنے رہے۔

انکے بقول امریکہ نے القاعدہ، طالبان سمیت بہت سارے مسلم ملیٹنٹ گروپس کو فنڈ کیا۔ یعنی دہشت گردی کا اصل محور اور اور مرکز بڑی طاقتوں خصوصاََ امریکہ کے مفادات سے وابستہ رہا ہے۔ جس میں سرد جنگ سے قبل اور بعد کے واقعات سے انکا ماننا وہی تھا، جیسا میں سجھتا تھا۔ میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ شروع میں اسرائیل نے ہی حماس کو فنڈ کیا، تاکہ الفتح اور دوسرے فلسطینی مزاحمتی گروپس کو کمزور کیا جائے۔ انہوں نے بہت ہی واضح طور پر اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم ایک دن سید حسن نصراللہ کو ضرور مار دیں گے۔ اور اس بات کو مان لیا کہ ابتک وہ حزب اللہ کے خلاف مسلسل ناکام رہے ہیں۔ اس کی زندگی میں خوفناک ترین رات کارگل میں گزری اور صبح اذان کے ساتھ ہی وہ وہاں سے نکل پڑا کہ کہیں حزب اللہ کے ہاتھوں مارا نہ جائے۔ دراصل اس نے کارگل شہر میں جگہ جگہ حزب اللہ کے پرچم دیکھے اور لوگ بھی جیسے حزب اللہ کے جہادی ہوں، جو اسرائیلی ہاتھ لگ جائے تو چیر پھاڑ ڈالیں۔ میں نے جب بتایا کہ میرا علاقہ کارگل سے سو کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے تو محتاط ہوگئے، اس پر مجھے وضاحت کرنی پڑی کہ جیسا تم سمجھتے ہو ویسا نہیں۔

اس نے کشمیر، لداخ اور ہماچل پردیش جیسے سرسبز و شاداب علاقے دیکھے ہوئے تھے۔ کشمیر اور ہندوستانی مقبوضہ علاقوں کی باتیں اور کچھ مقامی مسلمانوں کی روئیداد سننے سنانے کے بعد دوبارہ سے فلسطین پر گفتگو شروع ہوئی۔ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ فلسطینی بے گناہوں کو مارنا ہماری غلطی ہے اور سعودی عرب اور اردن وغیرہ کیساتھ اچھے مفاہمتی تعلقات پر خوش ہیں۔ اس کے بقول اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ ایران دہشتگردوں کی مدد کر رہا ہے، اسلئے اس سے دشمنی ہے، جبکہ ایران ایٹمی میزائل ٹیکنالوجی بھی حاصل کرچکا ہے۔ میں نے کہا ابھی میزائل نہیں صرف ایٹمی انرجی پر کام کر رہا ہے تو کہنے لگا کہ ہم جانتے ہیں۔ اسرائیل کے ایٹمی طاقت ہونے کی بات پر اس نے صرف قہقہہ لگانے پر اکتفا کیا، مزید کھنگالنے پر کہنے لگا کہ کوئی نہیں جانتا کہ ہمارے پاس کیا ہے اور کیا نہیں۔ زیادہ اصرار کرنے پر مان گیا کہ ہمیں اپنے دفاع کا حق ہے۔ میں نے سوال دہرایا کہ کیا یہ حق پاکستان اور ایران کو بھی ہے؟ تو اس نے اتفاق کیا کہ یقینا ہے، بس حزب اللہ اور دہشتگردوں کو نہ دیں۔ اس دوران میرے چائنیز دوستوں کے قہقہے لگتے رہے۔

اس کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنیوالی ستر سالہ پرانی سیاست کو ترک کرکے حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے، کیونکہ وہ مسلمانوں کو دوست اور بھائی سمجھتے ہیں، جبکہ دشمنی صرف دہشتگردوں سے ہے۔ آٹھ ملین کی قلیل آبادی والے اسرائیل میں ڈیڑھ ملین مسلمان اور کچھ تعداد عیسائیوں کی بھی ہے، جو آبادی کے حساب سے اسرائیلی اسمبلی میں نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ دنیا بھر میں یہودیوں کی کل آبادی تیرہ ملین ہے۔ اتنی قلیل آبادی کے باوجود اسرائیلی ہٹ دھرمی کی وجہ دریافت کرنے پر بولے کہ اسرائیل کی طاقت ٹیکنالوجی اور اکنامی ہے، تیسری طاقت کا ذکر نہیں کرونگا۔ میں نے ہتھیار کی مارکیٹ کا بتایا تو قہقہے کیساتھ اتفاق کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان، انڈونیشیا اور ملائیشیا نہیں جاسکتا، اس کا افسوس رہیگا، جبکہ دوسرے مسلم ممالک نہ جا سکنے پر افسوس نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button