ڈاکٹر علی حیدر اور مرتضیٰ حیدر کے نام
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) گذشتہ سال 3 اگست کو پروفیسر ظفر حیدر انتقال فرما گئے۔ یعنی ہفتہ بھر قبل اُن کی پہلی برسی تھی۔ بتایا گیا تھا کہ اُن کے انتقال کی وجہ یہ تھی کہ اُنہیں کینسر ہوگیا تھا لیکن کسی کو یقین نہ تھا اور اس لئے لکھا تھا کہ اگر حسرت و یاس کے شاعر ناصر کاظمی کو پروفیسر ظفر حیدر کی روداد سنائی جاتی تو وہ یقیناً کینسر کے لفظ کو "روگ” کے لفظ سے بدل دیتے۔ پروفیسر ظفر حیدر کینسر سے نہیں بلکہ اپنے بیٹے ڈاکٹر علی حیدر اور 12 سالہ پوتے مرتضٰی حیدر کے قتل کے روگ کی وجہ سے چل بسے تھے۔ فروری 2013ء میں ڈاکٹر علی حیدر اور اُن کے معصوم بیٹے مرتضٰی کو اُنہی دہشتگردوں نے لاہور میں شہید کیا تھا، جنہیں حالیہ انتخابات میں سب نے الیکشن لڑتے دیکھا۔ ڈاکٹر علی حیدر اور مرتضٰی کے جنازے میں شریک ہونے والے کچھ دوستوں کے مطابق ضعیف العمر پروفیسر ظفر حیدر اپنے بیٹے اور پوتے کو سپردِ خاک ہوتا دیکھ کر سوائے "یا محمدا، وا محمدا (ص)” کے اور کچھ نہ پکار رہے تھے۔ ایک تصویر اُسی تدفین کے وقت کی ہے۔
دوسری تصویر ابھی ایک دو روز پرانی ہے۔ خیالِ نو (Ideas9) تنظیم کے کچھ دوست چند روز قبل شہید ڈاکٹر علی حیدر کے گھر گئے تھے، تاکہ درخواست کرسکیں کہ اُن کی تنظیم کی طرف سے شروع کی گئی شجرکاری مہم کے سلسلے میں ایک پودا شہید کے گھر میں ڈاکٹر علی حیدر کے نام سے بھی لگائیں۔ ڈاکٹر وقار ہاشمی نے کل اُس ملاقات کی تفصیل لکھتے ہوئے بتایا تھا کہ ڈاکٹر علی حیدر کی والدہ پروفیسر سیدہ طاہرہ بخاری کو اس مہم کی تفصیل بتانے کیلئے اُںہوں نے ذہن میں ایک خاکہ بنایا تھا لیکن اُن کے سامنے بیٹھ کر سوائے "ڈاکٹر علی حیدر” کے اور کچھ نہ کہہ سکے اور بے اختیار رو دیئے۔ ایک ضعیف ماں کے سامنے اُس کے مقتول بیٹے کا تذکرہ کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ لکھتے ہوئے ذہن میں حسن صادق کے ایک پنجابی نوحے کو مصرعہ ذہن میں آگیا:
"پُتراں دے صدمے جھلنے، ہوندے اوکھے نے ماواں کُوں”
ڈاکٹر وقار ہاشمی مزید بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر علی حیدر کے نام پر ایک پودا لگانے کی اجازت لیکر جب وہ رخصت ہونے لگے تو پیچھے سے پروفیسر طاہرہ بخاری نے آواز دیکر کہا "بیٹا ایک پودا میرے مرتضٰی کیلئے بھی لگا دیں۔” یعنی یہ لوگ ڈاکٹر علی حیدر کے گھر اُن کی اور مرتضٰی کی یاد میں ایک ایک پودا لگا آئے ہیں۔ یہ تصویر اُسی وقت کی ہے۔ تنظیم خیال نو کے ہی ایک دوست نے یہ تصویر مجھے انباکس میں بھیجی اور کہا کہ آپ اس تصویر پر کچھ لکھنے کی کوشش کریں۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ آج ہم ان کے گھر پودا لگانے گئے تھے، یہ ڈاکٹر علی حیدر کی والدہ ہیں، "یہ بہت رو رہی تھیں۔” دوست نے غالباً روانی میں ہی یہ جملہ لکھ دیا ہوگا لیکن پڑھ کر میرے حلق میں کانٹا سا چبھ گیا، جو یہ تحریر لکھتے ہوئے بھی مسلسل چبھتا رہا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا اور مجھے یقین ہے کہ صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہوا۔ اس خاندان کیلئے گذشتہ برسوں میں، میں ںے جب کبھی بھی کچھ لکھنے کی کوشش کی، جب جب ڈاکٹر علی حیدر کی زوجہ کی لکھی کوئی انگزیری تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا، حلق میں ایک کانٹا سا چبھتا رہا کہ بھلا اپنے محسنوں کے ساتھ بھی کوئی ایسا کرسکتا ہے۔؟
تصویر میں ڈاکٹر علی حیدر کی والدہ آنسو پونچھ رہی ہیں، جنہیں اپنے جیتے جاگتے بیٹے اور پوتے کو یاد کرنے کیلئے اب یا عالم تخیل میں اُن کی ان گنت یادیں میسر ہیں یا اُن کی قبریں، یا شیلف میں رکھی اُن کی بہت سی تصویریں اور اب یہ پودے بھی۔ میرا دل کہتا ہے کہ ان پودوں کو یہ بہت چاہ اور حسرت کے ملے جلے احساس کے ساتھ پانی دیا یا دلوایا کریں گی۔ ڈاکٹر علی حیدر شہید سے کون واقف نہیں۔ بینائی سے محروم انسانوں کیلئے مسیحا تھا۔ دنیا بھر میں ایک نام تھا۔ سنا ہے شہادت کے بعد خبر آئی تھی کہ اُن کا نام دنیا کے سو بہترین ڈاکٹرز کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، لیکن مجھ سمیت بہت سے لوگ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ ان کے والد پروفیسر ظفر حیدر بھی انہی کی طرح مسیحا تھے جبکہ والدہ پروفیسر طاہرہ بخاری بھی یہ غم جھیلنے کے باوجود ایک مسیحا کی صورت ہمارے سامنے موجود ہیں۔
گذشتہ برس چل بسنے والے پروفیسر ظفر حیدر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل رہ چکے تھے اور خود ایک ماہر سرجن تھے۔ ہزاروں مریض اُن کے ہاتھ سے شفاء یاب ہوئے اور کتنے ہی ماہر سرجن ہونگے، جن کو اُنہوں نے چار دہائیوں پر محیط اپنے مسیحائی کیرئیر میں تیار کیا۔ پروفیسر سیدہ طاہرہ بخاری Anatomy کی پروفیسر رہی ہیں۔ کتنے طالبعم ہونگے جو ان سے پڑھ کر ماہر ڈاکٹر بن چکے، کتنے مریض ان کے ہاتھ سے شفاء پا چکے۔ ان دونوں نے اور ان کے شہید بیٹے نے کبھی کسی بھی مریض کا علاج کرنے سے قبل یہ نہیں ہوچھا ہوگا کہ اُس کا مذہب کیا ہے، عقیدہ کیا اور مسلک کیا ہے۔ افسوس کہ اس مسیحا گھرانے کو ہم نے صلے میں سوائے غم اور مصائب کے کچھ نہ دیا۔ یہ دو تصویریں اس خانوادے کا غم بیان کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ایک تصویر 2013ء کی ہے، جس میں ایک ضعیف والد اپنے مقتول بیٹے اور پوتے کو سپرد خاک ہوتا دیکھ رہا ہے اور دوسری 2018ء کی، جس میں یہ ضعیف والدہ اپنے بیٹے اور پوتے کے نام پر لگائے جانے والے پودوں کو دیکھ کر رو رہی ہیں۔