یمن میں سعودی عرب نے گھٹنے ٹیکے، عوام کی تاریخی فتح
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) بحران یمن کے بارے میں سویڈن کے دار الحکومت اسٹاک ہوم میں کامیاب مذاکرات ہوئے اور مغربی یمن کے الحدیدہ شہر نیز الحدیدہ صوبے میں جنگ بندی پر مفاہمت ہو گئی جس پر یمن میں خوشیاں منائی گئیں ۔
دارالحکومت صنعا سے اسٹاک ہوم جانے والے وفد کے سربراہ محمد عبد السلام نے کہا کہ یہ سمجھوتہ پورے یمن کے عوام کی فتح ہے تاہم یہ اندیشہ شروع سے ہی تھا کہ سمجھوتے کی خلاف ورزی کی جا سکتی ہےاور یہی ہو رہا ہے ۔ الحدیدہ سے میڈیا میں آنے والی رپورٹوں میں بتایا جا رہا ہے کہ سعودی اتحاد کی جانب سے اس علاقے میں پھر سے فائرنگ ہو رہی ہے ۔ سنيجر کو بھی فائرنگ کی خبریں موصول ہوئیں ۔
تقریبا چار سال سے جاری جنگ کے بعد جنگ بندی کے بارے میں مفاہمت ہو گئی تھی ۔ اس لئے یمن کے متعدد حلقے اس سے خوش تھے ۔ یمن کے حالات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ملک کے عوام تو جنگ سے تھک چکے ہیں اور امن چاہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سعودی عرب کا فوجی اتحاد یمن میں امن نہیں چاہتا ۔ سعودی عرب نے یمن کے ایک گروہ کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور اسی کو یمن کی قانونی حکومت کا نام دیتا ہے جبکہ حالات یہ ہیں کہ اس گروہ میں شامل افراد یمن کے بجائے سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں موجود ہیں اور مذاکرات کے لئے ان کا وفد ریاض سے اسٹاک ہوم گیا تھا اور مذاکرات کے بعد ریاض لوٹ گیا ۔ یعنی یمن کے اندر ان کا کوئی عوام اثر و رسوخ نیز ٹھکانہ نہیں ہے ۔
اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب مذاکرات یمنی فریق کے درمیان ہوگئی تو امن کا قیام آسان ہوگا لیکن جہاں معاملہ سعودی عرب کا ہوگا وہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ موجودہ حالات میں جنگ بندی ہو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کی کوشش تھی کہ یمن کی سیاست پر سعودی عرب کے حمایت یافتہ گروہوں کے ذریعے اپنا کنٹرول قائم کر لیں ۔ سعودی عرب، یمن ہی نہیں بلکہ علاقے کے دیگر ممالک جیسے بحرین، کویت، قطر، لبنان اور عراق کے بارے میں بھی اسی طرح کی کوشش کرتا رہا ہے لکن اسے بحرین کے علاوہ کہیں بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی حالانکہ بحرین میں بھی جس دن تحریک انقلاب کامیاب ہوئی سعودی عرب کا اثر و رسوخ وہاں بھی ختم ہو جائے گا۔
یمن کے حوالے سے سعودی عرب نے منصور ہادی اور ان سے وابستہ گروہوں کو اپنا وسیلہ بنایا ہے جن کے ذریعے سے وہ یمن کی سیاست کو ہائی جیک کرنا چاہتا ہے حالانکہ حالات یہ ہیں کہ ان گروہوں کو یمن کے اندر جگہ نہیں مل پا رہی ہے ۔ سویڈن مذاکرات میں شرکت کے لئے سعودی حمایت یافتہ گروہ جو گیا تھا وہ یمن کے بجائے ریاض سے گیا تھا اور مذاکرات کے بعد ریاض ہی لوٹ کر گیا ۔
مذاکرات کے دوران جب کچھ نکات کے بارے میں اس وفد کو مشورہ کرنا ہوتا تو وہ یمن کے بجائے سعودی عرب اور امارات سے مشورہ کرتے تھے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ گروہ یمن کے عوام کے کسی حصے کے بجائے سعودی عرب اور امارات کی قیادت کر رہا تھا ۔
اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کو یمن میں کچھ حاصل نہیں ہو سکا ہے اور اسی لئے وہ نہیں چاہتے کہ موجودہ حالات میں جنگ بندی نافذ ہو تاہم دوسری جانب عالمی سطح پر سعودی عرب اور خاص طور پر ولیعہد محمد بن سلمان پر سینئر صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے میں شدید دباؤ ہے ۔
امریکی سینیٹ میں سعودی عرب کے خلاف دو قراردادیں منظور ہوئی ہیں ۔ ایک میں محمد بن سلمان کو جمال خاشقجی کے بے رحمانہ قتل کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور دوسری قرارداد میں سعودی عرب کو جنگ یمن کے لئے امریکا سے ملنے والی حمایت کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ اس عمل میں بن سلمان کی حمایت کرنے کی وجہ سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی بری طرح پھنس گئے ہیں ۔
بہر حال ان حالات میں سعودی عرب کو یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ جنگ یمن کو جاری رکھنا آسان نہیں ہوگا ۔ چونکہ اس جنگ پر ریاض حکومت اربوں ڈالر برباد کر چکی ہے اس لئے اب اس کی کوشش ہے کہ یمن میں کچھ اس کے ہاتھ لگ جائے لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس کا امکام بہت ہی کم ہے ۔