پاکستانی شیعہ خبریںمضامینمقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

بوشہرہ کی مساجد بطور مورچہ

شیعہ نیوز: کرم کی لڑائی کو بند ہوئے دس دن سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، تاہم لڑائی کے بعد معمول کے مطابق جنگ کے اسباب و اثرات پر تبصروں نیز بعض غلط پشتو روایات کے مطابق فخر و مباہات کا سلسلہ جاری ہے۔ جنگ کیلئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے میں شیعہ اور سنی میں سے کوئی بھی دوسرے سے پیچھے نہیں، جبکہ اہل سنت قبائل کے بعض افراد کی جانب سے بوشہرہ کو ایک مظلوم اور کمزور علاقہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لہذا میں یہاں بوشہرہ کے جغرافیائی اور قبائلی خدوخال واضح کرنے کی ادنیٰ کوشش کرتا ہوں۔ بوشہرہ پاراچنار کے جنوب جبکہ دریائے کرم کے شمال میں مواضع شاخ اور احمد زئی کے درمیان واقع ہے۔ درجن بھر دیہات پر مشتمل بوشہرہ ایک الگ ویلیج کونسل ہے، جس کی آبادی 8000 نفوس سے کچھ زیادہ ہے۔ اہل سنت یہاں اکثریت میں ہیں، تاہم معمولی تعداد میں شیعہ دیہات بھی یہاں موجود ہیں۔

بوشہرہ میں جوزک، یاردہ، سنی ڈنڈر، ڈاڈو کلے، مدگی کلے، عزیزی کلے، زاڑہ بوشہرہ، غُنڈے کلے، جنان کلے، خان کلے، غلجے کلے، جاڑو کلے اور نواب کلے وغیرہ اہل سنت کے، جبکہ حکیمی کلے، علی مامو کلے، ملا کلے، شیعہ ڈنڈر، غلام علی کلے اور گل کلے وغیرہ شیعوں کے ہیں۔ چنانچہ گذشتہ بلدیاتی انتخابات میں چیئرمین سیٹ سمیت سات میں سے پانچ نشستیں اہل سنت ہی نے جیتیں۔ بوشہرہ کے مغرب میں ڈنڈر گاؤں واقع ہے، جہاں اہل سنت کا ایک بہت بڑا مدرسہ اور بہت بڑی مسجد موجود ہے، جبکہ جوزک، یاردہ اور عزیزی کلے میں الگ سے بڑی بڑی اور عالیشان مساجد ہیں۔ یہاں کئی پرائمری سکولوں سمیت ایک بوائز ہائی سکول، جبکہ ایک گرلز مڈل سکول بھی موجود ہے۔

ڈنڈر میں دو چھوٹے دیہات شیعہ بنگش کے ہیں۔ جن میں سے ایک کو نادر علی (المعروف نادرلو کلے) کہتے ہیں، جس کی آبادی بمشکل 8 گھرانوں پر مشتمل ہے۔ اس گاؤں کے ان 8 گھرانوں میں سے صرف 5 گھرانوں کے مرحوم حاجی نور حسین اور مرحوم فقیر حسین کی بوشہرہ کے ایک گاؤں جوزک کے رہائشی ملک حاجی بخت جمال کے ساتھ 60 سال پرانی دشمنی چلی آرہی ہے۔ 60 سال قبل بخت جمال کے چچا زاد بھائی کو رات کے وقت لکڑیوں کی چوری کے الزام میں فقیر حسین وغیرہ نے قتل کیا تھا۔ جس پر کرم روایات کے مطابق فیصلہ ہوچکا تھا۔ تاہم اس کا بدلہ کوئی 30 سال بعد فقیر حسین کو قتل کرکے لیا گیا۔ فریقین کے مابین یہی بنیادی اور اصل تنازعہ ہے۔

حاجی بخت جمال اور حاجی نور حسین جو کہ اس تنازعے کے فریقین ہیں، دونوں کا تعلق بنگش قبیلے سے ہے۔ چوری اور قتل کے اس مسئلے کے علاوہ فریقین کے مابین قوم حمزہ خیل کی ملکیتی شاملاتی قطعہ اراضی پر بھی ایک پرانا تنازعہ چلا آرہا ہے۔ حالانکہ دونوں کا حصہ رسدی قوم حمزہ خیل کی شاملاتی رقبے میں بندوبستی گھرانوں کے اعتبار سے متعین ہے۔ اس قطعہ اراضی پر ان کے مابین متعدد مسلح جھڑپیں ہوچکی ہیں۔ تاہم ہر مرتبہ جھڑپ حاجی بخت جمال فریق کی جانب سے ہی شروع ہوتی ہے۔ جمعہ 7 جولائی کو ہونے والی لڑائی کی بنیادی وجہ اس سائٹ کے توسط سے پہلے ہی بتائی جاچکی ہے کہ اس سے ایک دن قبل جمعرات کی شب گیارہ بجے مسلح طالبان اس علاقے میں گشت کر رہے تھے۔

اگلے دن جب اسرار حسین ولد حاجی نور حسین وغیرہ حمزہ خیل کی اس متنازعہ اراضی میں کام کر رہے تھے کہ دن کو 3 بجے حاجی بخت جمال کے مسلح دستے نے راکٹ لانچرز اور مشین گنوں سے ان پر حملہ کر دیا۔ جس سے لڑائی چھڑ گئی اور پھر یہ لڑائی تو بند ہوگئی، تاہم اس نے پورے کرم کو اپنی لبیٹ میں لے لیا۔ معمول کے مطابق ڈنڈر کے ان سات کمزور گھرانوں کی کمک کیلئے اطراف کے شیعہ جبکہ بخت جمال کی کمک کو ہزار نفوس پر مشتمل بوشہرہ کی یہ کثیر آبادی پہنچ جاتی ہے۔ بوشہرہ کے مشرق میں احمد زئی اور جنوب میں مالی خیل اور تائیدہ واقع ہے۔ تاہم ان اطراف سے نیز شمال کی جانب سے یہ بالکل محفوظ ہے۔ ایک گولی بھی ان پر نہیں چلائی جاتی، جبکہ بوشہرہ سے تائیدہ، شاخ دولتخیل سمیت پاراچنار پر بھی مارٹر گولے نیز میزائل داغے جاتے ہیں۔

پاراچنار شہر پر یہاں سے 20 کے قریب میزائل داغے گئے، جس میں متعدد زخمیوں میں سے ایک سات سالہ بچہ بھی دونوں آنکھوں سے محروم ہوگیا، جس کی تصاویر نیٹ پر دستیاب ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ کہ فیس بک کے بعض غازیوں کی جانب سے فریاد بھی اٹھائی جاتی ہے کہ بوشہرہ ایک چھوٹا سا کمزور علاقہ ہے۔ چنانچہ عرض ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو جنگ کی ابتداء ہمیشہ بوشہرہ سے کیوں کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر ان کی آبادی کم ہے تو چیئرمین سمیت اکثر سیٹیں انہوں نے کیوں جیتیں۔ بیشک بوشہرہ میں اچھے اور پرامن لوگ بھی ہونگے، تاہم بعض افراد نے اسے اپنے مفادات کی خاطر اغوا کیا ہوا ہے۔ ان افراد کے بعض کارناموں سے اپنے کرمفرماؤں کو آگاہ کرتا ہوں۔

لڑائیوں کی ابتداء:
جولائی1987ء میں پہلی مرتبہ اس علاقے میں مین روڈ کو بند کرکے شیعہ مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر یرغمال بنایا گیا، جو بعد میں جنگ کا سبب بنا۔ ستمبر 1996ء میں بوشہرہ کے مڈل سکول میں متعین افسری محمد نامی ٹی ٹی استاد نے شیعہ بچوں کے سامنے حضرت ابو طالبؑ کی شان میں گستاخی کی، جس پر شیعہ بچوں اور اساتذہ نے احتجاج کیا۔ چند ہی دن بعد یہی عمل خونریز فسادات کا باعث بنا۔

خود کش حملہ آوروں کی سہولتکاری:
پاراچنار سٹی میں امام بارگاہ گیٹ دھماکہ میں، گرداور جنت خان کے بھتیجے کونسلر عابد نے سہولتکار کا کردار ادا کیا۔ خودکش کو اپنے گھر میں رکھ کر اگلے روز دھماکہ کرایا۔ جس پر دو سال جیل کاٹی۔ اس کے علاوہ حاجی حجت منگل کے بیٹے فیض محمد نے دھماکہ کرایا، جسے بعد میں حکومت نے افغانستان میں مار دیا۔ سبزی منڈی دھماکہ کی پلاننگ بھی بوشہرہ کے ایک رہائشی ہی نے صدہ میں تیار کی۔

ذاتی دشمنی کا انتقام بوشہرہ میں:
کرم بھر کے اہل سنت اپنے شیعہ دشمنوں سے انتقام یا تو صدہ میں لیتے ہیں یا پھر بوشہرہ میں لیتے ہیں۔ جن میں سے کچھ کا مختصراً یہاں تذکرہ کر دیتے ہیں۔ 1987ء میں متھہ سنگر کے معروف ملک جان نے شبلان کے ایک سوزوکی ڈرائیور کو پاراچنار سے سپیشل کراکے یہاں بوشہرہ میں قتل کیا۔ 27 دسمبر 2006ء کو اسحاق بنگش نے اپنے دشمن تائیدہ کے ڈرائیور فدا حسین اور اس کے ساتھ بیٹھی سواری سید تاجر حسین کو اسی بوشہرہ میں قتل کیا۔ متھہ سنگر کے ایک رہائشی نے دولت خیل کے رہائشی حبیب حسین کو یاردہ بوشہرہ میں قتل کر دیا۔ غوزگڑھی کے نامی خان نے دولت خیل ہی کے مشیر حسین ولد منصب علی کو بھی یہاں قتل کیا۔ چنانچہ کرم کے علاقائی فسادات میں بوشہرہ کا رول بہت ہی واضح ہے۔

2007ء تا 2012ء کے طویل محاصرے کے دوران جب شیعوں پر پاکستان کے تمام راستے بند تھے اور یہ لوگ افغانستان سے ہوکر پشاور جایا کرتے تھے، چنانچہ طوریوں کے درمیان واقع بوشہرہ بھی محصور تھا، اس کے باوجود بوشہرہ کو مرکزی امام بارگاہ پاراچنار کی جانب سے 35 لاکھ روپے کا راشن دیا گیا اور انہیں پورا تحفظ فراہم کیا گیا، حالانکہ یہ لوگ یہاں سے نکلنا چاہتے تھے۔ معترضین کی جانب سے گاودر کی مثال بھی دی جاتی ہے کہ وہاں 100 کے لگ بھگ شیعہ گھرانے اہل سنت کے درمیان امن سے رہتے ہیں تو اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ اہلیان گاودر سرے سے اسلحہ نہیں رکھتے۔ انہوں نے کبھی اہل سنت خصوصاً پاڑہ چمکنی کے خلاف کوئی جارحیت نہیں کی ہے، بلکہ ان کے ساتھ ہر سطح پر بھرپور تعاون کیا ہے۔ چنانچہ ان کی مثال دینا ہی خارج از موضوع ہے۔

تحریر: ایس این حسینی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button