کرد آبادی والے شہر منبج کا کنٹرول شامی فوج نے سنبھال لیا
ایس اے این اے کے مطابق شام کی مسلح افوج کی مرکزی کمان کے جاری کردہ بیان میں ملک کے چپے چپے کی آزادی اور حکومت کی رٹ کے قیام کا عہد دہراتے ہوئے کہا گیا ہے کہ منبج کے لوگوں کی درخواست پر شامی فوج علاقے میں داخل ہو گئی ہے۔
بیان میں ملکی اقتدار اعلی کے تحفظ، دہشت گردی کے خاتمے، جارحین کی نابودی اور غاصبوں کو باہر نکالنے کے لیے عوامی جدوجہد کو سراہتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملک کی مسلح افواج عوام کی جان و مال کے تحفظ کی ضامن ہیں اور اپنا فریضہ بخوبی انجام دیتی رہیں گی۔
شام میں کردوں کے ٹھکانوں پر ترک فوج کے ممکنہ حملے کے خطرے کو دیکھتے ہوئے وائی پی جی کے دفاعی دستوں کی مشترکہ کمان نے شامی فوج سے درخواست کی تھی کہ بیرونی حملوں کے مقابلے میں عوام کے دفاع کی خاطرشہرکا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لے۔
پی وائی جی کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ملک کی کرد آبادی جغرافیائی لحاظ سے دمشق حکومت سے وابستہ اور فطری طور پر شامی سرزمین کا حصہ ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بارہ دسمبر کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترک فوج شام کے علاقے مشرقی فرات میں فوجی آپریشن کے لیے تیار ہے اور یہ آپریشن کسی بھی وقت شروع کیا جا سکتا ہے۔
ترک فوج پچھلے دو برس کے دوران فرات شیلڈ اور شاخ زیتون کے نام سے دو فوجی آپریشن کرچکی ہے جس کا مقصد کرد جماعت پی کے کے اور پی وائی کے مسلح گروہوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ شام کے سرحدی شہروں الباب، اعزاز، جرابلس اور عفرین میں ترک فوج اب بھی موجود ہے۔
درایں اثنا ایران کی وزارت خارجہ نے منبج شہر میں شامی فوج کی تعیناتی اور اس ملک کا قومی پرچم لہرائے جانے کا خیر مقدم کیا ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تہران شام کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ منبج شہر میں شام کا قومی پرچم نصب کیا جانا قانونی حکومت کے رٹ قائم کرنے اور بحران کے حل کی جانب اہم قدم ہے۔