مضامین

سید صادقین احمد نقوی دنیا کے شہرہ آفاق مصور، خطاط نقاش پاکستانی

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)ان کے والد سیّد سبطین احمد نقوی کا گھرانہ خطاطی کے حوالے سے زمانہ دراز سے مشہور تھا، 1940ء کی دہائی میں وہ ادب کی ترقی پسند تحریک میں شامل ہوچکے تھے، ان کی شخصیت میں پوشیدہ فنکارانہ صلاحیتوں کو سب سے پہلے پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی نے شناخت کیا۔

30 جون 1920ء کو ہندوستان کے ممتاز علمی شہر امروہہ (اترپردیش) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آبائی شہر امروہہ ہی میں حاصل کی، بعد ازاں آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ تقسیم ہند کے بعد آپ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آ گئے۔

1940ء کی دہائی میں وہ ترقی پسند ادیبوں اور فن کاروں کی تحریک میں شامل ہوئے۔

صادقین کی خطاطی اور مصوری اتنی منفرد اور اچھوتی تھی کہ ان کے دور ہی میں ان کے شہ پاروں کی نقل ہونے لگی تھی اور بہت سے مصوروں نے جعلی پینٹنگز بنا کر اور ان پر صادقین کا نام لکھ کر خوب مال کمایا جبکہ خود صادقین نے شاہی خاندانوں اور غیر ملکی و ملکی صاحبِ ثروت افراد کی جانب سے بھاری مالی پیشکشوں کے باوجود اپنے فن پاروں کا بہت کم سودا کیا۔

ان کے فن پاروں کی پہلی نمائش 1954ء میں کوئٹہ میں ہوئی تھی جس کے بعد فرانس، امریکا، مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی ایسی نمائشیں منعقد ہوئیں۔ مارچ 1970ء میں آپ کو تمغہ امتیاز اور 1985ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ آپ کو سب سے پہلے کلام غالب کو تصویری قالب میں ڈھالنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ آپ کی خطاطی و مصوری کے نمونے فیصل مسجد اسلام آباد، فریئر ہال کراچی، نیشنل میوزیم کراچی، صادقین آرٹ گیلری اور دنیا کے ممتاز عجائب گھروں میں موجود ہیں۔

ان کی دیوار گیر مصوری کے نمونوں (میورلز) کی تعداد کم وبیش 35 ہے جو آج بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان، فریئر ہال کراچی، لاہور میوزیم، پنجاب یونیورسٹی، منگلا ڈیم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف جیولوجیکل سائینسز، اسلامک انسٹی ٹیوٹ دہلی اور ابو ظہبی پاور ہاؤس کی دیواروں پر سجے شائقینِ فن کو مبہوت کر رہے ہیں، صادقین نے جناح اسپتال اور پی آئی اے ہیڈ کوارٹرز کے لیے بھی ابتدا ہی میں میورلز تخلیق کیے تھے جو پُر اسرار طور پر غائب ہوچکے ہیں۔

صادقین نے قرآنِ کریم کی آیات کی جس مؤثر، دل نشیں اور قابلِ فہم انداز میں خطاطی کی وہ صرف انہی کا خاصہ ہے، بالخصوص سورہ رحمن کی آیات کی خطاطی کو پاکستانی قوم اپنا سرمایۂ افتخار قرار دے سکتی ہے، غالب اور فیض کے منتخب اشعار کی منفرد انداز میں خطاطی اور تشریحی مصوری ان ہی کا خاصہ ہے، انہیں فرانس، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں کی حکومتوں کی جانب بھی سے اعزازات سے نوازا گیا۔

صادقین کی خطاطی اور مصوری اتنی منفرد اور اچھوتی تھی کہ ان کے دور ہی میں ان کے شہ پاروں کی نقل ہونے لگی تھی اور بہت سے مصوروں نے جعلی پینٹنگز بنا کر اور ان پر صادقین کا نام لکھ کر خوب مال کمایا جبکہ خود صادقین نے شاہی خاندانوں اور غیر ملکی و ملکی صاحبِ ثروت افراد کی جانب سے بھاری مالی پیشکشوں کے باوجود اپنے فن پاروں کا بہت کم سودا کیا۔

فن خطاطی اور مصور کے ساتھ ساتھ ان کو جس چیز سے بہت لگاو تھا وہ شاعری تھی شاعری کے فن پاروں میں ان کی دو کتابیں یاد گار ہیں،

رقعات صادقین

رباعیات صادقین

صادقین کو اللہ تعالی نے پیدا ہی اس کام کے لیے کیا تھا، وہ ایک ایسا درویش صفت انسان تھا جسے اپنے کام کے سوا کسی چیز سے کچھ تعلق نہ تھا، کئی لوگوں نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ جب صادقین سے ملاقات ہوئی تو دو گھنٹے کی خاموش کے بعد واپس لوٹ آئے، صادقین اپنے کام میں 12گھنٹوں سے زیادہ صرف کرتے کبھی کبھی 36 گھنٹے کام کرتے، واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ انہیں صرف ایک چیز کی فکر ہوتی تھی کہ میرے رنگ ختم ہو گئے ہیں، بکثرت کام کی وجہ سے ان کو متعدد بیماریاں لاحق تھیںجن میں بڑا مسئلہ ان کے جگر کی خرابی تھی ، جب ان کا انتقال ہوا وہ اس وقت بھی کراچی کے فرئیر ہال کی دیوار پر کام کر رہے تھے، یہ 10 فروری کا ایک سرد دن تھا وہ کام کرتے کرتے اچانک زمین پر گر پڑے قرب و جوار کے لوگوں نے ان کو پکڑا، دیکھا ہوش دلائی، مگر مقرر یہی تھا کہ فرئیر ہال کی یہ دیوار نامکمل ہی رہ جائے ، طبی امداد کے لیے لے جائے گئے مگر اس بار ہو شفاخانہ سے لوٹے نہیں ڈاکٹروں نے بتایا کہ دنیا کے سب سے بڑے صاحب دل کا دل دھوکہ دے گیا ہےاب وہ ہم میں نہیں رہےصادقین ’’صادقِ حقیقی‘‘ سےجا ملے۔صادقین ہمارے دلوں میں اس طرح بسے ہوئے ہیں ان کے بارے میں یہ کہنے کو جی ہی نہیں کرتا کہ وہ 10 فروری 1987کو کام کرتے ہوئے گرے اور سخی حسن کے قبرستان میں محو خواب ہیں۔

صادقین نے تادم مرگ شادی نہیں کی تھی ان کی کوئی بیوی نہ تھی کوئی ماہ رخ نہیں تھی، حالانکہ ان سے قبل سب کا کہنا اور ماننا تھا کہ انہوں نے ماہ رخوں کے لیے مصوری سیکھی ہے، صادقین کی بیوی نہ تھی ان کو اولاد نہیں تھی،مگر کیا ہی خوب آدمی تھا جس کے لیے تمام آنکھیں اشکبارتھیںجس کے لیے لاکھوں ہاتھ بارگاہ ایزدی میں بلند ہوکر دل کی گہرائیوں سے دعاوں کے پنچھی آزاد کرتے ہیں، اس کو بچھڑے ہوئے 32 برس ہو گئےمگر کلمات خیر بادبان کھولے اس کی تلاش میں روز نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button