مضامین

شریف حکومت اور بدمعاش دہشتگرد، در پردہ تعلقات (3)

nawaz sharef5 جون 2013ء کو میاں نواز شریف نے ڈرونز کے بارے میں بات کرتے ہوئے پارلیمان میں سفارتی انداز اپنایا۔ انہوں نے امریکہ کا نام لئے بغیر تمام جماعتوں کے رہنماؤں کو مخاطب ہوکر کہا کہ "آئیں مل کر بیٹھیں، صلاح مشورہ کریں کہ کیا اقدامات اٹھائیں۔ دوسرے ممالک کے کنسرن (تشویش) ہیں، انہیں کس طرح ایڈریس کریں۔ وہ ہمارے کنسرنس کو کس طرح ایڈریس کریں اور روز روز کا جو سلسلہ ہے ڈرونز حملوں کا اس کا باب اب بند ہونا چاہیے۔ ڈرونز حملوں کی بندش کے ذکر پر پورا ایوان تالیوں سے گونج اٹھا، لیکن شاید ہی کسی نے سمجھا ہو کہ یہ مطالبہ نہیں مشورہ تھا۔ میاں صاحب نے گویا امریکہ اور دیگر کی تشویش کو تسلیم کیا اور اسے دور کرکے ڈرونز حملے رکوانے کی بات کی۔

اس کے جواب میں 6 جون 2013ء کو امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے کہا جیسا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی کارروائیوں کو آگے بڑھا رہے ہیں تو ہمارے لیے یہ بات بہت زیادہ اہم ہے کہ ہم دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ قریبی تعلقات جاری رکھیں اور ہم انھیں مطلوبہ مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے ملکوں میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کرنے کی ان کی استعداد بڑھائیں۔ نواز شریف نے اپنی اس تقریر میں طالبان کے ساتھ مذاکرات یا دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ آج بھی جب کوئی تحریک طالبان پاکستان جیسی القاعدہ کی فرنچائزز کے خلاف طاقت کے استعمال کی بات کرتا ہے تو مولانا نواز شریف کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور انہیں اسامہ بن لادن کے احسانات یاد آتے ہیں۔

مسلم لیگ نون کی طرح تحریک انصاف نے بھی اسی ملٹری اشرافیہ کی کھوکھ سے جنم لیا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کے راہنما بھی بن وردی کے سرکاری ملازم ہیں یا کم از کم ایسی ہی ذہنیت کے پروردہ ہیں۔ ایسے جنونی گروہوں پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے، جنہیں پالا تو پاکستان میں گیا لیکن انہوں نے امریکہ دشمنی کا نعرہ لگا کر پاکستان کے خلاف بھارتی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع کر دیا اور آج مشرق وسطٰی میں امریکی مفادات کی جنگ میں ایک بار پھر سی آئی اے کا ساتھ دے رہے ہیں۔ مذاکرات نتیجہ خیز ہوں گے، اس پر یقین کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ہم ایسے ہی مذاکرات بھارت سے بھی کر رہے ہیں اور کئی عشروں سے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے نام پر یہی کھیل امریکہ کے ساتھ بھی کھیلا جا رہا ہے۔

جب تک پاکستان پر قابض اشرافیہ غیر ریاستی عناصر کو خارجہ پالیسی کے ٹول کے طور استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی پالیسی پر نظرثانی نہیں کرے گی، اسوقت تک نہ ملکی خود مختاری بحال ہوسکتی ہے، نہ ڈرون حملے رک سکتے ہیں، نہ پاکستان میں امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی کشمیر کی آزادی ممکن ہے۔ اگر حالات یہی رہے تو پاکستان کا مستقبل لبنان والا ہوگا کہ جہاں ہر گروہ اپنی ملیشیا اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنے تشخص کی حفاظت کرے اور ریاست کے وجود کو باقی رکھنے کے لیے محب وطن قوتیں ہر وقت حالت قیام میں رہیں، ورنہ ایک طرف دہشت گرد نشانہ بناتے رہیں گے تو دوسری طرف امریکہ اور بھارت جہاں چاہیں گے مداخلت کریں گے۔ پاکستان میں قومی سلامتی کے ایشوز پر قومی اتفاق رائے کا فقدان فقط اسی وجہ سے ہے کہ پاکستانیوں کی غالب اکثریت غیر ریاستی عناصر کے کردار کی قائل نہیں، لیکن طاقت کے تمام مراکز پر کنٹرول رکھنے والی سول، ملٹری اشرافیہ اپنا وطیرہ بدلنے کو تیار نہیں۔

ہزاروں کی تعداد میں فوجیوں کی شہادت کے باوجود آج تک کسی نے فوج کے حق میں آواز نہیں اٹھائی، بلکہ پاکستانیوں کی اکثریت اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں کہ فوج دہشت گردوں سے لڑ رہی ہے، سب کا یہی کہنا ہے فوج تو دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ ایسے عناصر پر مکمل پابندی لگائی جائے جو اس وقت فوج میں تھے جب دہشت گردوں کے ذریعے خارجہ پالیسی کے مقاصد حاصل کرنے کی شروعات ہوئیں۔ جب تک ایسے ریٹائرڈ افسروں کو نکیل نہیں ڈالی جائے گی، فوج کے بارے میں منفی رائے عامہ میں اضاٖفہ ہوتا رہے گا۔

پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے سمیت تمام امور پر قومی اتفاق رائے کا فقدان ہے اور ریاستی اداروں میں یہ تناؤ جو ہماری زیادہ تر تاریخ میں تو عسکری اور سیاسی قیادت میں رسہ کشی تک محدود تھا، رفتہ رفتہ گھٹتا بڑھتا ہر ادارے کو نگل چکا ہے، یہ ٹھیک ہے کہ عدلیہ سیاست میں کودی اور فوج بدنام ہوئی، لیکن عوام نے اپنی انتخابی قوت کا بھی بھرپور مظاہرہ کیا۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ دہشت گردوں کی طرف سے بیان کئے جانے والے دہشت گردی کے جواز کی تائید ہر سیاسی مذہبی جماعت کر رہی ہے کہ امریکہ کی طرف سے شروع کی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت اور 2004ء سے شروع ہونے والے ڈرون حملے تباہی کا سبب ہیں۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے محرکات کی نشاندہی کرتے ہوئے جب اس بات پر اصرار کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ بازاروں سے عبادت گاہوں تک میں یہ کس طرح جائز ہوسکتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعاون تو حکومتیں کرتی ہیں، لیکن انتقام کا نشانہ عوام کو بنایا جاتا ہے۔
(جاری ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button