مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کیلئے 30 کروڑ
تحریر: طاہر یاسین طاہر
ناطقہ سر برگریباں ہے کہ اسے کیا لکھے؟ یہ کے پی کے، کی حکومت ہے، جس نے مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے لئے اپنے بجٹ میں سے تیس کروڑ روپے مختص کر دیئے ہیں؟ مگر کیوں؟ اس لئے کہ یہ مدرسہ طالبان کے باپ کہلانے والے مولانا سمیع الحق کا ہے۔ یہاں وہ طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں، جنھوں نے آگے چل کر ملا عمر اور اسامہ بن لادن کی روایات کو زندہ رکھنا ہے۔ تجزیہ کار کی مجبوری یہی ہے کہ وہ کسی موضوع یا واقعے کے بارے لکھتے ہوئے اس کے تاریخی پس منظر کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ عمران خان اس سے زیادہ کی تبدیلی لا بھی نہیں سکتے۔ یہ وہی عمران خان ہیں جنھیں پیار سے ’’طالبان خان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی، مسلم لیگ نون، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام ( ف) اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے لئے یہ حکم عام تھا کہ وہ جہاں چاہیں جلسہ کرسکتے ہیں اور ان جماعتوں نے بڑے بڑے جلسے کئے بھی، مگر پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کو طالبان یعنی کالعدم تحریکِ طالبان کی طرف سے سنگین نتائج کی دھمکیاں تھیں، یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم 2013ء کے انتخابات میں کوئی بڑے جلسے نہ کرسکیں، سوائے اکا دکا کارنر میٹنگز کے۔ مذکورہ جماعتوں نے اپنی اپنی انتخابی مہم اخباروں میں اشتہارات شائع کروا کے چلائی۔
طالبان نوازی میں عمران خان اور مسلم لیگ نون بالکل ایک پیچ پر ہیں۔ یہ وہی عمران خان ہیں، جنھوں نے طالبان کے خلاف جاری آپریشن کے خلاف ایک بڑی ریلی نکالی تھی، بہ ظاہر وہ ریلی ڈرون حملوں کے خلاف تھی، مگر اس ریلی کا مقصد طالبان سے اظہار یکجہتی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ کیا ریاستیں دہشت گردوں سے مذاکرات کیا کرتی ہیں؟ مگر نون لیگ اور پی ٹی آئی نے آخری وقت تک کالعدم دہشت گرد جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دی، تا آنکہ کالعدم تحریک طالبان نے اے پی ایس پشاور پر حملہ نہ کر دیا۔ اس کے بعد جا کر نون لیگ اور پی ٹی آئی کا جماعتی بیانیہ تبدیل ہوا، مگر ان کا اندر آج بھی وہی ہے اور ان کے دل آج بھی کالعدم جماعتوں کے سرپرستوں کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال کے پی کے، کی حکومت کی جانب سے مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے لئے تیس کروڑ کی امداد ہے تو دوسری جانب نون لیگ کی حکومت کا لال مسجد کے خطیب کے لئے نرم و گرم گوشہ ہے۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام ف علیحدہ سے نون لیگ کی اتحادی ہے۔
عمران خان نے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اس فیصلے کا دفاع یہ کہتے ہوئے کیا ہے کہ اس سے انتہا پسندی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ ان کے بقول اس سے مدرسے کے طلبہ کو معاشرے کا حصہ بنانے، مرکزی دھارے میں لانے اور انہیں بنیاد پرستی سے دور رکھنے میں مدد ملے گی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ جب طالبان نے صوبے میں انسداد پولیو مہم کی مخالفت کی اور پولیو ورکرز کو قتل کیا تو اس وقت مولانا سمیع الحق (دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ) نے انسداد پولیو مہم کی حمایت کی تھی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے بھی اپنے دور حکومت میں دارالعلوم حقانیہ کی مدد اور حمایت کی تھی، یہاں تک کہ عبدالولی خان نے مدرسے کا دورہ بھی کیا تھا۔ سول مگر یہ ہے کہ کیا تیس کروڑ سے وہ نیا اسلحہ نہیں خریدیں گے؟ جن کی تربیت ہی قتال پر ہو، ان سے یہ توقع کیسی کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہو کر امن کے قیام کا ذریعہ بنیں گے؟ وہ جو اپنے سوا دوسروں کو مرتد و کافر جانیں؟ وہ قومی دھارے میں شامل ہو بھی جائیں تو اپنی من پسند ’’شریعت‘‘ کے نفاذ کے لئے اصرار نہ کریں گے؟
عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ وہ تیس کروڑ کی سیاسی رشوت دے کر صوبے کا مذہبی ووٹ خرید لیں گے اور یہ کہ مولانا فضل الرحمان کا اثر و رسوخ کم کر دیں گے۔ یہ معاملے کا دوسرا پہلو ہے۔ عمران خان یہ بھی سمجھ رہے ہوں گے کہ اتنی رقم دے کر وہ مولانا سمیع الحق کے ذریعے صوبے میں امن قائم کر دیں گے۔ دوسرے لفظوں میں انھوں نے اکوڑہ ختک والے مدرسے کو صوبائی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے طاقت کا مرکز بھی تسلیم کر لیا ہے۔ دفاع افغانستانن کونسل والے مولانا سمیع الحق، جو آج کل دفاع پاکستان کونسل میں بہت گرم ہیں، بے شک طالبان سمیت انتہا پسند اور دہشت گردانہ قوتوں پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ مگر ان کا یہ اثر و رسوخ ان کا اپنا کمال کم اور ریاست کی کمزوری زیادہ ہے کہ جس نے مولویوں کو ریاست کے اندر ریاستیں قائم کرنے کی ا جازت دی۔
نون لیگ اگرچہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہے، مگر وزیر اعلاعات کی اس بات میں وزن بہت ہے کہ جس مدرسے سے تعلق رکھنے والوں نے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل میں کردار ادا کیا، انہیں یہ انعام کیوں دیا گیا ہے؟ یہ انعام ہے یا فطرانہ؟ کچھ بھی ہے مگر سوال یہ ہے کہ آخر اس مدرسے کا معاشرتی بناؤ اور ترقی میں کردار ہی کیا ہے کہ اسے اس قدر نوازا گیا؟ اس مدرسے سے اٹھنے والی ہر تحریک کا نتیجہ ملک میں انتشار اور انتہا پسندی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آخری تجزیے میں عمران خان نے سیاسی بھتہ دے کر اپنی بقا کا سوال اٹھایا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان اور طالبان علیحدہ علیحدہ ہیں۔ طالبان کے سیاسی ونگ کا نام پی ٹی آئی لکھا جائے تو اس میں اعتراض کیا ہوگا؟ جب پی ٹی آئی کی حکومت اس فیکٹری کو ’’بیل آوٹ پیکج‘‘ دے گی، جو طالبان اور اس نوع کے ف
کری رویے تیار کرتی ہے، جن سے معاشرے میں عدم برداشت کو رواج ملتا ہے تو پھر ایسے سوالات تو اٹھائے جائیں گے۔