حرم کے تقدس کی حفاظت ۔۔۔احسان یاد رکھے گا کعبہ حسینؑ کا
دین اسلام کو بچانے کی خاطر 28 رجب کو امام حسین ؑ نے نانا کا شہر مدینہ چھوڑا اور 3شعبان کو مکہ پہنچ گئے ۔امام حسینؑ 3 شعبان سے 8 ذوالحجہ تک یعنی چار مہینے سے زیادہ مکہ میں قیام پذیر رہے۔ مکہ میں آپؑ کی تشریف آوری محبان رسول ؐ نہایت مسرور تھے اور مکہ کی سرزمین بھی نبی کریم ؐ کے نواسے کی آمد سے مزید منور ہو چکی تھی۔
یزیدیت کو محافظ اسلام کا مکہ میں قیام پذیر رہنا سخت ناگوار تھا ۔ فرزند رسول ؐ حج کے لئے احرام بھی باندھ چکے تھے ۔دوسری جانب سے عمرو بن سعید بن العاص (جو عمرو بن عاص کی نام سے مشہور تھا) یزید کی جانب سے مأمور ہوا کہ مکہ جاکر امام حسین علیہ السلام سے بیعت لے یا پھر آپ ؑ سے لڑے۔
وہ ترویہ کے روز (8 ذوالحجہ) کو مکہ پہنچا۔ کعبہ کے محافظ و پاسدار امام حسین علیہ السلام کو مکہ اور اللہ کے حرمِ امن کے تقدس کی فکر تھی اور آپ ؑ جانتے تھے کہ یہ دشمنان خدا، اللہ کے حرم کے لئے حرمت کے قائل نہیں ہیں لہذا آپ ؑ نے حج تمتع کو عمرہ مفردہ میں بدل دیا اور مکہ سے رخت سفر باندھ لیا۔
امام حسین ؑ کے مکہ چھوڑنے کا اصل محرک حرمت مکہ معظمہ اور حرم امن کی حرمت تھا چنانچہ جب آپ ؑ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے آپ ؑ کو مکہ سے چلے جانے سے منع کرنا چاہا اور آپ ؑ کو مکہ میں قیام جاری رکھنے کی ترغیب دلائی تو آپ ؑ نے فرمایا: "جان برادر! مجھے خوف ہے کہ یزید کہیں مجھے حرم میں ہی قتل نہ کر ڈالے اور میری وجہ سے اس گھر کی حرمت ہی پامال نہ ہوجائے۔”
عبداللہ بن عباس، فرزدق اور عبداللہ بن زبیر، نے بھی قیام جاری رکھنے کی درخواست کی اور ان کا خیال تھا کہ یہ لوگ (یزیدی) حرم کی حرمت کا خیال رکھیں گے مگر آپ ؑ نے ان کے جواب میں بھی فرمایا: "اگر میں حرم کی حدود سے ایک بالش برابر فاصلے پر ماراجاؤں اور مکہ کی حرمت میری وجہ سے نہ ٹوٹے تو یہی میرے لئے بہت بہتر ہے”۔ بعد میں جب عبداللہ بن زبیر نے بنوامیہ کے خلاف قیام کیا اور بنوامیہ نے کعبہ کو منجنیقوں کا نشانہ بنایا اور عبداللہ کو مسجدالحرام میں ہی قتل کرڈالا تو سب کو معلوم ہوا کہ ابن عباس اپنی مشہور ذہانت اور ابن زبیر اپنی زیرکی کے باوجود بنو امیہ کے بارے میں غلطی پر تھے اور امام حسین علیہ السلام مستقبل کو کتنا واضح دیکھ رہے تھے۔
جب حجاج کرام مِنی کی جانب روانہ ہوئے تو امام علیہ السلام نے طواف کیا نماز طواف ادا کی اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی، تقصیر فرمائی (سرکے کچھ بال کٹوائے) اور احرام کو وداع کیا اور اس طرح آپ ؑ نے حج تمتع کو عمرہ مفردہ میں بدل دیا اور کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔
صحن حرم میں خون کو بہنے نہیں دیا
احسان یاد رکھے گا کعبہ حسینؑ کا
جب یہ خبرحضرت محمد بن حنفیہ کو ملی تو وہ جلدی سے امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؑ کی اونٹنی کا کی لگام اپنی ہاتھ میں لے لی اور عرض کیا: "میرے عزیز بھائی! کون سی چیز اتنی عجلت سے خارج ہونے کا سبب ہوئی؟” سیدالشہداء ؑ نے فرمایا: "کل رات کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ (ص) نے فرمایا: میرے لاڈلے حسین! خدا نے چاہا ہے کہ آپ کو مقتول دیکھ لے”۔
حضرت محمد ابن حنفیہ کے لبوں سے نکلا: “انا للہ و انا الیہ راجعون” ور پھر کہا: تو پھر ان خواتین اور بچوں کو کیوں ساتھ لے کر جارہی ہیں؟”۔
امام ؑنے فرمایا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ : خدا نے چاہا ہے کہ انہیں حالت اسیری میں دیکھ لے”۔ اس طرح امام حسین علیہ السلام حرم الہی کی حفاظت کی خاطر رسول اللہ کا حکم پاتے ہیں امر خدا کے احیاء کی غرض سے اہل و عیال اور بعض دوستوں اور موالی کے ہمراہ مکہ سے سے روانہ ہو کر کربلا کو معلی بنانے کیلئے روانہ ہوگئے ۔
حج کرنےسے روکاہےنانا کےرقیبوں نے
حجاج سے زیادہ میرے زوار دیکهنا