ریکوڈ ک سے متعلق اگر عالمی عدالت انصاف میں ہمارے خلاف فیصلہ آ گیا تو ہمیں 4 سو ملین ڈالر ادا کرنا ہونگے,نواب ثنا اللہ زہری
شیعہ نیوزی(کوئٹہ) اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد ملنے والے اختیارات کے بعد وفاق کی جانب دیکھنے کی روایت کو ترک کرتے ہوئے مسائل کے حل کےلئے ٹھوس عملی اقدامات کرنا ہونگے۔ ریکوڈ ک سے متعلق اگر عالمی عدالت انصاف میں ہمارے خلاف فیصلہ آ گیا تو ہمیں 4 سو ملین ڈالر ادا کرنا ہونگے اور مشکلات بڑھ جائیں گی۔ حقائق یہ ہیں ریکوڈک کو چلانا ہمارے بس کی بات نہیں۔ان خیالات کا اظہار چیف آف جھالاوان مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے صدر نواب ثناءاللہ خان زہری نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے سیاسی و معاشی استحکام کے لئے قیام امن کو اولین شرط قرار دیتے ہوئے کہا کہ گوادر پورٹ کی چین حوالگی سے مشکلات اور مسائل میں اضافے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عالمی قوتوں کی نظریں اس خطے پر لگی ہیں۔ معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ نواب ثناءاللہ زہری نے کہا کہ عددی اعتبار سے مسلم لیگ اسمبلی میں اکثریتی و بڑی جماعت ہے اور اگر ہم چاہیں تو حکومت بھی بنا سکتے ہیں لیکن ہم مری میں ہونے والے معاہدے کے پابند ہیں۔ اس لئے مخلوط حکومت کا حصہ ہیں۔ گوکہ ساتھیوں کے خدشات اور تحفظات ہیں۔ متعدد معاملات ہیں، جس میں ہمیں اتحادی کے طور پر اعتماد میں نہیں لیا جاتا لیکن اس کے باوجود ہم وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں بلوچستان میں امن و استحکام ترقی و خوشحالی کے خواہاں ہیں حالانکہ جو خدشات اور تحفظات ہیں ان کا برملا اظہار خود وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی میڈیا کے سامنے کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواب رئیسانی کی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی گورنر راج کا نفاذ ہوا تو بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کا پہیہ مکمل طور پر جام ہوگیا۔ اب گوکہ ہماری مخلوط حکومت کو ایک سال ہو رہا ہے، لیکن اس ترقی کے عمل کو اس طرح شروع نہیں کرسکے۔ جس طرح ہونا چاہیئے۔ اس میں مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پی ایس ڈی پی کا طریقہ کار، عدم تعاون یا غیر سنجیدگی کا عنصر بھی ہو سکتا ہے۔ اب جو پی ایس ڈی میں بجلی کے لئے 57 لاکھ روپے دیئے جا رہے ہیں، اس سے ٹرانسفارمر کی تنصیب تو مشکل ہے اور گرین بلوچستان کے لئے ایک کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جو ہم سمجھتے ہیں کہ ناکافی ہیں۔ میگا پراجیکٹس سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں معروضی حالات کو محلوظ خاطر نہیں رکھا جا رہا۔ گوادر پورٹ چین کے حوالے کرنے کا فیصلہ تو کیا گیا ہے لیکن اس سے مشکلات اور مسائل میں کس حد تک اضافہ ہوگا، شاید اس کا ادراک نہیں کیا گیا۔ امریکہ، ایران سمیت دیگر ممالک کی مداخلت بڑھے گی اور ان کی مداخلت کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھنا چاہیئے۔
اپنے معروضی اور یہاں موجود مخصوص حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ امریکہ یا دیگر عالمی طاقتیں نہیں چاہیں گی کہ صرف اور صرف گوادر میں چین کا اثر رسوخ ہو اور ہمارے حالات اور کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کا انہیں موقع ملے گا۔ دوسرا یہ بھی ہے کہ گوادر پورٹ کی مکمل فعالیت سے ایرانی پورٹ متاثر ہو گی اور دوبئی کی معاشی سرگرمیوں پر اثرات مرتب ہونگے۔ لہذا یہاں بڑی قوتوں کے مفادات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا اور ان حالات سے ہمیں کس طرح نمٹنا ہے اس کے لئے حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔ ریکوڈک کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ہے تو باعث تشویش ہے کیونکہ ماضی میں جس کمپنی کو کان کنی کی اجازت دی گئی۔ اس کے ساتھ معاہدہ ختم کردیا گیا ہے اور کمپنی نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا ہے۔ اگر وہاں فیصلہ ہمارے خلاف آ جاتا ہے تو اس کے دیگر منفی پہلووں کو تو چھوڑیں ہمیں 400 سو ملین ڈالر ادا کرنا ہونگے۔ یہ کوئی 40 ارب روپے بنتے ہیں۔ جو یقیناً ہمارے لئے مشکل بھی ہو گا اور اس سے ہمارے لئے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔