مضامین

6جولائی 1987ء سے، 1جولائی 2012ء تک

Minar-e-pakistan-1st-july

جب ملک میں سیاسی خلفشار، افراتفری اور چالبازیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں، لوڈ شیڈنگ کے ستائے عوام سیاسی مداریوں کے ہاتھوں استعمال ہو کر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجاتے دیکھے جا رہے ہیں، دہشت گردی کا دوردورہ اور ملک دشمنوں کا راج ہے، جب اہل تشیع کو ملک کے کئی ایک شہروں میں بدترین دہشت گردی اور فرقہ وارانہ حملوں کا سامنا ہے، جب عدلیہ ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کرکے عوامی جذبات سے کھیل رہی ہے، جب ملک کی ایک صوبائی حکومت دہشت گردوں کو ساتھ ملا کر انہیں کھل کھیلنے کی اجازت دے چکی ہے، جب ایک دوسرے صوبے میں مخصوص شکل و صورت کے حامل شیعہ ہزارہ قبائل پر حملے معمول بن چکے ہیں، جب ملک کا سب سے بڑا شہر دہشت گردوں، فرقہ پرستوں، اور کئی ایک جرائم پیشہ گروہوں نے یرغمال بنا رکھا ہے ہر گذرنے والے دن یہاں زندہ انسانوں کو لاشوں میں بدلنے کا کاروبار ہوتا ہے، جب ملک میں غربت سے تنگ آئے افراد خودکشیاں کر رہے ہیں، جب امریکی و استعماری ورلڈ بنک اور imf کے ذریعے صیہونیوں نے دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی پاور کی معیشت کو جکڑ رکھا ہے، جب امریکہ کے ساتھ خارجہ تعلقات میں کشیدگی کے عروج پر نظر آ رہی ہے، جب دینی جماعتیں ملی یکجہتی کونسل کے نام سے ایک بار پھر متحد و منظم ہو رہی ہیں، جب ملت تشیع کی شیرازہ بندی ہر شیعہ کی تمنا اور خواہش ہے، ایسے وقت میں ایک ملی پلیٹ فارم سے شیعہ قوم کو پاکستان کے سب سے بڑے اور تاریخی جلسہ گاہ میں اجتماع کی کال دی ہے۔ یکم جولائی کو ملت جعفریہ ایک نئی تاریخ رقم کرے گی اس حوالے سے پوری قوم کا جوش و خروش قابل دیدنی ہے، ہر شہر اور قریہ میں اس حوالے سے ملت بلخصوص نوجوانوں میں جذبے جوان دیکھے جا رہے ہیں اس موقعہ پر یہ امید اور توقع کی جا رہی ہے کہ شیعہ قیادت اس موقعہ پر شہید قائد کی طرح واضح سیاسی و قومی حکمت عملی اور جدوجہد کا اعلان کرے گی۔

6جولائی 87ء کے تاریخ ساز دن کو ملت جعفریہ میں بےحد اہمیت حاصل ہے، اس روز شہید قائد علامہ عارف الحسینی نے ملک گیر تاریخی قرآن و سنت کانفرنس منعقد کی تھی اور اس میں سیاسی لائحہ عمل اور نھضت کا اعلان بھی کیا تھا۔ شہید قائد علامہ عارف الحسینی نے ملت تشیع کو ملکی سیاست اور حقوق کے حصول کا جو راستہ دیا تھا اس میں عزت اور وقار، غیرت و حمیت اور استقامت و شہامت تھی۔ شہید کا کہنا تھا کہ۔۔۔۔ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے تمامتر وسائل بروئے کار لائیں گے حتیٰ کہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک اس جد و جہد میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے لیکن اپنے مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

* ہم کاسہ لیسی کی سیاست کو نہ اپنائیں گے بلکہ اپنے دینی تشخص کے ساتھ حصول مقصد کیلئے سیاست میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ ایسی سیاست جس میں مطالبات دین غالب ہوں۔ ہم کسی سیاسی جماعت کے تابع نہیں ہیں۔

* ہم وقار اور عزت کی زندگی کو غلامی پر ہر قیمت میں ترجیح دیں گے۔

* صرف وحدت اسلامی سے ہی ملک میں نفاذ اسلام کا عمل کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ قائد شہید کا کہنا تھا کہ علماء سیاست میں امام خمینی رہ کی پیروی کریں انھوں نے کہا، طاغوتی طاقتوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ علماء کو سیاست سے دور رکھیں۔ اس سلسلے میں آپ امام خمینی رہ کی رہبری و رہنمائی میں ان استعماری سازشوں کا مقابلہ کریں، کسی کو خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ امریکہ مردہ باد کہنا ایک خارجی مسئلہ ہے اور ہمیں صرف اپنے داخلی اور اندرونی معاملات کے بارے میں سوچنا چاہیئے بلکہ ہمیں داخلی و خارجی تمام معاملات سے نبرد آزما ہونا چاہیئے۔

* علمائے کرام کے بغیر اسلام اور انقلاب کا تصور سرے سے ہی ممکن نہیں۔ میں نوجوانوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ علمائے کرام سے خصوصی رابطہ رکھیں۔ میں علمائے کرام سے زور دیکر یہ کہوں گا کہ وہ نوجوانوں کی بھرپور تربیت کریں۔ اور اس سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں تاکہ اسلام دشمن قوتیں ان کی توانائیوں سے استفادہ نہ کر سکیں۔

یہ پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمرانہ دور کی بات ہے۔ جنرل ضیاء الحق نوے روز کے وعدے پر اقتدار پر قابض ہوئے تھے، اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگا دی تھیں اور کئی اہم سیاسی رہنماؤں کو پابند سلاسل اور بدترین سزاؤں کا شکار کیا تھا، اس وقت کئی ایک مذہبی و سیاسی جماعتوں نے مشترکہ طور پر جمہوریت کی بحالی کیلئے اتحاد ایم آر ڈی تشکیل دے رکھا تھا، اس اتحاد میں پیپلز پارٹی اور بزرگ سیاست دان نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم بھی شریک تھے، جن سے شہید قائد نے گہرے مراسم قائم کر رکھے تھے۔ 6 جولائی
87ء کو ضیاءالحق کو اقتدار پر قبضہ کئے 10 برس ہو چکے تھے، اس آمرانہ دور میں فوجی حکمران نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے فرقہ واریت، ہیروئن، قوم پرستی، لسانیت اور علاقائیت پھیلانے جیسے منحوس اور ملک دشمن اقدامات کیے تھے جو آج تک ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں اور اس ملک کی تقدیر کے ساتھ جونکوں کی طرح چمٹے نظر آتے ہیں ایسی جونکیں جو اس ملک اور ملت کا خون نچوڑ رہی ہیں۔ آج بھی ملک میں ہونے والی ہر دہشت گردی اور واردات کے پس پردہ ضیاء کے پروردوں کی کارستانیاں واضح نظر آتی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ اب 11 ستمبر ہو چکا ہے جو خود ضیاء الحق کی تیار کردہ مخصوص مکتب فک
ر کی لابی کا کارنامہ ہے جس کو بنیاد بنا کر آج امریکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو چن چن کر قتل کر رہا ہے اور عراق ،افغانستان اور پاکستان میں خون کی ندیاں بہا دی ہیں۔

6 جولائی 1987ء کو قائد شہید اس ملت کے روح رواں تھے اور مینار پاکستان کے سائے تلے ملت کی سربلندی کا روڈ میپ دے رہے تھے۔ تو آج ان کی آواز پر لبیک کہنے اور ان سے عشق و محبت سے سر شار نوجوان و بزرگ علماء کی ایک بڑی تعداد ملی پلیٹ فارم پر جمع ہو کر شہید کے مشن اور مقصد کی تکمیل ان کے بتائے ہوئے راستے کی روشنی میں کرنے کا عہد اور عزم دہرائے گی۔ آج ملک کے قریہ قریہ اور شہر شہر میں معصوم اور بیگناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے، امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے، ہر طرف آہ و بکا ہے، ظلم اپنی تمام حدود کراس کر چکا ہے۔ ملک میں انرجی کرائسز نے اقتصادیات کا جنازہ نکال دیا ہے، مہنگائی نے جینا دوبھر کر دیا ہے، جس طرف بھی نگاہ اٹھائیں مسائل کے انبار دکھائی دیتے ہیں مگر اس سے کسی کو انکار نہیں کہ تمام مسائل اپنی جگہ اہمیت رکھنے کے باوجود فرقہ وارانہ قتل و غارت اور بڑھتی ہوئی کشیدگی سے زیادہ خطرناک اور کچھ نہیں ہے۔۔۔ ۔۔ فرقہ وارانہ قتل و غارت اور دہشت گردی سے ایک طرف تو معصوم اور بیگناہوں کا لہو بہتا ہے ان سے زندگی کا حق چھین لیا جاتا ہے اور ان کے ورثاء کے سامنے مسائل و مصائب کے پہاڑ کھڑے کر دیئے جاتے ہیں اور دوسری طرف ملکی معیشت ،سیاست،امن و امان میں بےیقینی پیدا کی جاتی ہے جس سے ہر شعبہ ء زندگی پر نہایت ہی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

یکم جولائی کو مینار پاکستان کے سائے تلے ہونے والا ملک گیر اجتماع اگرچہ جھلسا دینے والی گرم ہواؤں میں ہونے جا رہا ہے مگر اس کے اثرات اور اہمیت کو پیش نظر رکھیں تو یہ باد نسیم و بہار کا باعث ہو گا۔ یقیناً یہ وہ آرزو ہے جو گذشتہ 18 برس سے ہر شیعہ دردمند پاکستانی کے سینے میں پنپ رہی تھی۔ 18 برس اس لیے کہ ملت کا آخری قومی اجتماع نومبر 1994ء میں عظمتِ اسلام کانفرنس کے نام سے منعقد ہوا تھا۔ 1995ء میں روح ملت ڈاکٹر محمد علی نقوی کو ہم سے چھین لیا گیا ان کی شہادت کے بعد ہماری قوم کا بھرم ٹوٹ گیا، ہم مینار پاکستان جیسے بڑے جلسہ گاہ کا رخ کرنے سے پس و پیش اور لیت و لال سے کام لیتے رہے، لہذا آج ہر درد مند اور مخلص شیعہ کی خواہش تھی کہ مینار پاکستان جیسے بڑے اور تاریخی جلسہ گاہ کو جس طرح دیگر جماعتوں نے شو آف پاور کا ذریعہ بنایا اسی طرح ملت تشیع بھی اس تاریخی مقام کو اپنی طاقت کے اظہار کا ذریعہ بنائے اور جس طرح 1987ء میں شہید قائد نے مینار پاکستان کے سائے تلے قرآن و سنت کانفرنس منعقد کر کے طاغوت کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیا تھا ایسے ہی یکم جولائی کو بھی ملت تشیع جمع اور متحد ہو کر طاغوتی ایوانوں کو ہلا کر رکھ د ے،یہ تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے پوری قوم لبیک یا حسین ع کا پر عزم شعار بلند کرتے ہوئے مینار پاکستان کی وسیع جلسہ گاہ میں جمع ہو گی اور ہم سب دیکھیں گے کہ ۔۔۔بیداری ہے بیداری ہے ۔۔طاغوت پہ لرزہ طاری ہے ۔۔۔

تحریر:ارشاد حسین ناصر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button