عالمی استکبار کا جمہوریت سے عناد (خصوصی کالم)
تحریر: جاوید عباس رضوی
عالمی استکبار اور ان کے ہمنوا خصوصاً عرب ممالک کے بادشاہوں کو جس چیز کے ساتھ زیادہ نفرت اور دشمنی ہے وہ مسلم امت کی بیداری اور آگاہی ہے، یہ دشمنی اور نفرت اس وقت انتہائی تشویشناک صورتحال پیدا کردیتی ہے کہ جب خود عرب ممالک میں عوامی انقلاب آ جائیں اور ملتیں اور قومیں بیدار ہوکر خاندانی و شاہی نظام کو نابود کرکے اپنے ممالک کے امور کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہیں اور انتخابات کے ذریعہ باصلاحیت اور دینی و مذہبی اور دلسوز افراد کے ہاتھوں اپنے ممالک کی بھاگ ڈور دے دیں اور اس طرح سے حکومت سازی اور تدبیر امور میں بالواسطہ شریک ہو جائیں۔ عالمی استعمار اور اس کی ہمنوا، بیدار ملتوں کی اس فطری اور پیدائشی حرکت کو اپنے لئے بڑا خطرہ محسوس کرکے فوراً ناپاک سازشوں کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں، چنانچہ ہم سب جانتے ہیں کہ انقلاب اسلامی مصر، یمن، لیبیا اور بحرین وغیرہ ممالک میں ایسا ہی ہوا، گذشتہ تین برسوں سے مغربی اور عربی طاقتیں مسلسل اس کوشش میں رہیں کہ بیدار مسلم قوموں کو اپنے مقصد تک نہ پہنچنے دیں اور لگتا ہے کہ فی الحال یہ قوتیں اپنے ان شیطانی کوششوں میں کامیاب رہیں۔
ہمارے لئے عبرت ہے کہ اسلامی و عربی ممالک میں سے اہم ترین ملک مصر کے انقلاب اور وہاں کی عوامی رائے کے ساتھ امریکہ اور اس کے نوکروں چاکروں نے کیا نہ کیا اور کس طرح اس ملک کے تازہ تدوین شدہ آئین اور منتخب حکومت کو بدل ڈالا اور برسر اقتدار تنظیم اخوان المسلمون کے تقریباً 1200 لیڈروں اور کارکنوں کو داخل زندان کرکے دوبارہ حسنی مبارک کے دوران کی واپسی کی شرائط فراہم کردیں۔ اگرچہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اخوان المسلمون کے محمد مرسی سے بھی کچھ غلطیاں ہوئیں جنکی وجہ سے مصری عوام سڑکوں پر آگئی، لیکن ہمیں انقلاب مصر کو ختم کرنے کے لئے انجام دی گئی امریکی، اسرائیلی اور عربی پس پردہ کوششوں کو بھولنا نہیں چاہیئے، یہی امریکہ اور عرب ممالک جو محمد مرسی کی حکومت کے دوران ایک پیسہ بھی مصر کو بصورت امداد دینے کے لئے راضی نہیں تھے، کس طرح اب نئے فوجی ڈکٹیٹر جنرل عبدالفتاح السیسی کو ہمہ جہت امداد کے لئے تیار ہو گئے۔
جس طرح تاریخ میں مذکور ہے کہ ہمیشہ اسلام دشمنوں نے دین کے ذریعہ ہی دین کو توڑا ہے اسی طرح مصر میں بھی بیت المال کے ریالوں سے ہی ایک ایسی حکومت کو ختم کردیا گیا کہ جس سے مصری عوام اور عالم اسلام کو بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، یہ تھی باتیں مصری انقلاب سے جڑی ہوئیں، اب آئیے عراق، عراقی عوام کا اسکے بغیر کوئی قصور نہیں ہے کہ انہوں نے امریکی فوج کو اپنے ملک سے باہر کردیا اور کئی دہائیوں سے چلے آ رہے ڈکٹیٹر راج کی جگہ ایک جمہوری حکومت کا انتخاب کردیا، اب اگر دنیا میں شرافت اور اصول نام کی کوئی چیز ہوتی تو عراقی عوام کی تحسین اور تعریف کی جاتی کہ انہوں نے بےشمار جانی و مالی قربانیاں دیکر اس مقدس سرزمین سے استبداد اور اغیار کو نکال باہر کردیا، لیکن الٹا یہ ہوا کہ عراقی عوام سے انتقام لیا گیا، ہر روز دھماکے، ہر روز نسل کشی اور روزانہ نئی مصیبتیں انکے نصیب میں آگئیں۔
سال 2003ء سے لیکر آج تک عراق میں تین بار پارلیمانی انتخابات ہوئے اور حال ہی میں تیسری بار پھر عراقی عوام نے دشمنوں کی طرف سے ایجاد شدہ دہشت گردی اور قتل و غارت کے ماحول کے باوجود بھاری تعداد میں الیکشن میں حصہ لیکر اپنے ووٹ اور اعتماد سے اپنے ملک کے تازہ تاسیس سیاسی نظام کی پھر آبیاری کی اور استحکام بخشا، لیکن یہ کام امریکہ اور اسکے علاقائی نوکروں کو قطعاً پسند نہیں ہے لہذا امریکہ اس بار عراقی عوام سے انتقام لینے اور اپنے سابقہ نوکروں کو یہاں اقتدار سونپنے اور آخرکار عراق کو مذہب اور قوم کے نام پر تین حصوں میں تقسیم کرنے کی تلاش میں ہے اور ان خطرناک مقاصد کے لئے اس سے زمینی دستوں کی ضرورت ہے جو بدقسمتی سے ’’القاعدہ‘‘ اور ’’داعش‘‘ جیسے نافہم اور متعصب جنگجو اور خونخوار گروپوں کی شکل میں امریکہ اور اسرائیل کی خدمت کے لئے ہر آن تیار بیٹھے ہیں۔
بقول رہبر معظم انقلاب اسلامی، ’’شمالی عراق کے کئی صوبوں پر اچانک حملہ اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے کہ دراصل یہ امریکہ کا کام ہے اور ’’داعش‘‘ و دیگر عناصر صرف آلہ کار بن کر امریکہ کے لئے لینڈ فورس کی خدمت انجام دے رہے ہیں اور ان کا اپنا کوئی ہدف و مقصد نہیں ہے‘‘، شام میں ابھی انہی افراد کو استعمال کیا گیا لیکن وہاں انہیں بے گناہوں کے قتل اور عام تباہی کے سوا کچھ بھی نہ ملا، اب انہیں عراق میں استعمال کیا جا رہا ہے اور یہاں بھی انہیں کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے البتہ اسلام دشمن قوتوں کو اس سے بڑا فائدہ کیا ملے کہ جب مسلمان فلسطین کے مسئلہ کو بھلا کر ایک دوسرے کے گریباں گیر ہوکر الہی دستورات (فان تنازعوا فتفشلوا ۔۔۔ القرآن) سے منہ موڑیں اور اس طرح سے اپنے حقیقی دشمن کے لئے راحت کا سامان فراہم کریں۔