غزہ، تکفیری داعش اور عربوں کی امتحان گاہ (خصوصی کالم)
تحریر: سید اسد عباس تقوی
غزہ ایک مرتبہ پھر تاریخ کی بدترین جارحیت کا شکار ہے۔ اس سرزمین کے باسیوں پر رمضان المبارک کے مہینے میں بارود اور فاسفورس کی بارش شروع ہوچکی ہے۔ خبروں کے مطابق اسرائیل کا ارادہ ہے کہ اپنی افواج کو غزہ میں داخل کرکے وہاں خون کی ندیاں بہائے۔ چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرے، ننھی کلیوں کو مسلے، نوجوانوں کو کچلے۔ اس وقت تک کی اطلاعات کے مطابق محصورین غزہ کے دسیوں افراد اسرائیلی بمباری سے جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ہسپتالوں میں ادویات کی کمی کا سامنا ہے۔ غذا اور پینے کا پانی دستیاب نہیں۔ ان محصورین کے زخموں پر نمک پاشی کے لیے غزہ اور مصر کے مابین واحد سرحد رفحہ کراسنگ گذشتہ سال کے ماہ اگست سے بند ہے۔ اب کوئی زخمی جان بچانے کے لیے مصر نہیں جاسکتا۔
تین یہودی لڑکوں کے اغواء اور قتل کو اسرائیل نے حملے کا بہانہ بنایا۔ ان یہودی لڑکوں کے قتل کے جواب میں ایک فلسطینی نوعمر کو اسرائیلی غنڈوں نے زندہ جلا دیا۔ اسرائیلی وزیراعظم اور حزب اختلاف کے راہنما کا کہنا ہے کہ ہمیں اس مرتبہ اپنی افواج کو غزہ میں داخل کرکے حماس کا خاتمہ کر دینا چاہیے۔ نیتن یاہو نے اپنی افواج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے دستانے اتار دو، ہمیں ہر حد تک جانا ہے۔
اسرائیلی فوج نے غزہ کے خلاف اس آپریشن کو ’’ Protection Edge‘‘ کا نام دیا ہے، جس میں ان کا حتمی مقصد حماس کی عسکری صلاحیت کو مکمل طور پر نیست و نابود کرکے مزاحمت کا مکمل خاتمہ ہے۔
اسرائیلی افواج نے 2006ء کے آپریشن کو ’’Summer rains‘‘ کا عنوان دیا، اس آپریشن میں ایک اندازے کے مطابق 117 افراد لقمہ اجل بنے۔ ان افراد میں بچوں، بوڑھوں، خواتین اور غیر مسلح جوانوں نیز حماس کے جنگجوؤں کے مابین تمیز نہیں کی جاسکتی۔ 2008ء میں اسرائیلی افواج کی جانب سے کیے گئے آپریشن کو ’’Cast Lead‘‘ کا عنوان دیا گیا، اس آپریشن میں تقریباً ایک ہزار معصوم شہری لقمہ اجل بنے۔ 2013ء کے آپریشن ’’Pillar of Defence‘‘ میں تقریباً 200 افراد شہید ہوئے۔ زخمی ہونے والے افراد اور غزہ کے باسیوں کو ہونے والا مالی نقصان اس کے علاوہ ہے، تاہم اسرائیلی افواج کا حالیہ آپریشن مختلف جہات سے گذشتہ تمام جارحیتوں سے مختلف ہے۔
یہ امر ایک حقیقت ہے کہ مشرق وسطٰی جہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، میں ایک مسلمان آبادی پر اتنا بڑا آپریشن اسرائیل کو درپیش چیلنجز نیز لاحق خطرات کو مدنظر رکھے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر کوئی بھی کارروائی خطے میں موجود اپنے دوستوں کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں کی۔ اس کی ایک مثال حسنی مبارک ہے کہ جس کے دور حکومت میں اسرائیلی آپریشن کے دوران ہمیشہ غزہ کراسنگ کو بند کر دیا گیا۔ اس بندش نے جہاں حماس کی مشکلات میں اضافہ کیا، وہیں غزہ کے محصورین کو بھی ناکوں چنے چبوائے۔ فلسطینیوں کی اس پٹی میں خوراک، غذا، ادویات کی ترسیل کا کوئی راستہ باقی نہ بچا۔ آج سیسی کی وفاداریوں کا امتحان شروع ہوچکا ہے۔ مصر حکومت نے رفحہ کراسنگ کو بند کرکے غزہ کے محصورین کو تنہا کر دیا ہے۔ مزاحمت کی تحریک کو کچلنے کا اس سے ظالمانہ انداز تاریخ انسانیت میں نہیں دیکھا جاسکتا۔
علاوہ ازیں اسرائیلی حکومت گذشتہ سالوں کی نسبت اس دفعہ زیادہ پرامید ہے کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ مشرق وسطٰی کا پورا خطہ داخلی جنگوں میں مصروف ہے۔ غزہ کی حمایت میں اٹھنے والی ہر آواز اس وقت اپنے وجود کے دفاع کے لیے سرگرم عمل ہے۔ شام جو گذشتہ نصف صدی سے حماس کا پشتی بان اور میزبان ہے اس وقت داعش، النصرہ اور دیگر عسکری گروہوں کے خلاف برسر پیکار ہے۔ حزب اللہ لبنان جو ہمیشہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ ان کی درد میں شریک رہی، آج شام کے میدان میں سرگرم عمل ہے۔ خطے میں حماس کی سب سے بڑی حمایتی قوت انقلاب اسلامی ایران اس وقت شام، عراق اور لبنان کے حالات کو سنبھالنے میں مصروف ہے۔ اسرائیل کی نظر میں یہ بہترین وقت ہے، جب حماس کو کچلا جا سکے اور فلسطین کی تحریک مزاحمت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کیا جاسکے۔
اسرائیلی حکومت گذشتہ اداور کی نسبت اس مرتبہ خطے میں موجود اپنے دوستوں سے زیادہ قریب تر ہے۔ شام میں جاری جنگ کے سبب ان کے مابین ایک عملی مشارکت وجود میں آچکی ہے۔ اسرائیل کو یہ بھی معلوم ہے کہ شام میں لڑنے والے مختلف گروہ منجملہ جبھۃ النصرہ اور فری سیرین آرمی اسرائیل کے احسانات تلے دبے ہوئے ہیں۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ نیتن یاہو نے شام میں لڑنے والے جنگجوؤں کی ایک اسرائیلی ہسپتال میں تیمار داری کی۔ غزہ کو اس مقام پر لانے کے لیے اسرائیل نے برسوں کام کیا۔ اس کی نظر میں آج پھل سمیٹنے کا وقت ہے۔
ان حالات میں حماس کس عرب ملک سے مدد کی توقع رکھے؟ آیا نجد کے شیخوں سے جو شام کی جنگ میں اسرائیل کے مدد گار رہے یا قطر کے امیروں سے جو لیبیا سے ہتھیار خرید کر شامی جنگجوؤں کو دیتے رہے۔ حماس ترکی سے مدد کی توقع رکھے یا اردن کی جانب نگاہیں اٹھائے۔ شام کی جنگ میں یہ تمام فریق ایک نظم کے تحت کام کرتے رہے۔ پیسہ عربوں نے لٹایا، زمین اردن کی استعمال ہوئی، ہتھیار ترکی فراہم کرتا رہا، تزویراتی اور انٹیلیجنس معلومات اسرائیل کی تھیں اور تربیت مغرب کی۔ ان حقائق سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے۔ نجد کے شیوخ کھلے عام کہتے رہے کہ ہم شام میں لڑنے والے جنگجوؤں کو بھاری
ہتھیار مہیا کریں گے۔ قطر، عرب امارات جنگجوؤں کی تنخواہوں کے ضامن تھے۔ اس اتحاد سے بھلا حماس اور غزہ کا باسی کیا توقع رکھ سکتا ہے؟
موجودہ صورتحال کا دوسرا پہلو عوامی ہے۔ وہ مسلمان جو دنیا بھر سے اپنے شامی اور عراقی بھائیوں کی مدد کے لیے شام آئے، کو کبھی غزہ اور فلسطین کیوں نظر نہ آیا؟ کیا فلسطینی مسلمان اس قابل نہیں کہ اس کی صدائے ھل من پر لبیک کہی جائے؟ عراق اور شام میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا رونا رونے والے فلسطینی مسلمانوں کے رستے ہوئے زخموں کو کیوں نہیں دیکھتے؟ سرزمین انبیاء کے باسیوں کا کیا قصور ہے کہ گذشتہ نصف دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود ان کے زخموں پر مرحم رکھنے والا کوئی نہیں۔ عرب ٹی وی چینل جو عراق میں اہلسنت علماء کے زندہ جلائے جانے کا جھوٹا پراپیگنڈہ کرکے دنیا بھر سے مسلمانوں کو عراق میں آکر جہاد کی ترغیب دیتے ہیں، کو فلسطین کا گیارہ سالہ نوجوان محمد ابو خضیر نظر کیوں نہیں آتا؟ ذہن مسلم آج یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ کیا القاعدہ، داعش، النصرہ اور شام کی جیش الحر اسرائیل کے خلاف میدان عمل میں اترے گی؟ کیا وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کو اسرائیلی جارحیت سے نجات دلوانے کے لیے شام کی سرحدوں سے فلسطین میں داخل ہوں گے؟ یا ان گروہوں کا جہاد اور سرحدوں کو توڑنے کا دعویٰ فقط مسلمان ممالک تک ہی محدود ہے۔
آج ذہن مسلم عراق میں قائم کی جانے والی ریاست کے امیر سے سوال کرتا ہے کہ کیا غزہ کے مسلمان کا خون تکریت، موصل اور الانبار کے مسلمان کے خون سے کم قیمت ہے، جس کے تحفظ کا بہانہ بنا کر آپ ایک مسلمان ملک کے وسائل پر چڑھ دوڑے۔ کیا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ ابوبکر البغدادی اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کریں گے اور شام میں موجود اپنے مجاہدین کو اسرائیل کی جارح افواج پر حملہ آور ہونے کا حکم دیں گے؟ کیا داعش شام کے چھنے ہوئے علاقے سے فلسطین کی آزادی کے لیے بھی قیام کریں گے؟ کیا نجد کے شیوخ، قطر کے امیر، اردن کے بادشاہ اور ترکی کے وزیراعظم اسرائیل کے خلاف بھی اپنی صلاحیات اور وسائل کا استعمال کریں گے؟ اگر ایسا ہو تو یہ مسلمانوں کی خوش قسمتی کا سال ہوگا اور اگر ایسا نہ ہوا تو غزہ پر جو بیتنی ہے وہ تو بیت ہی جائے گی، تاہم یہ جنگ ملت کے خائنوں کے چہروں سے نقاب بھی نوچ پھینکے گی۔ خدا غزہ کے مظلوم شہدا کی قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، جن کے پاکیزہ لہو نے ہمیشہ ملت کے خائنوں کو بے نقاب کیا۔ خداوند کریم غزہ کے مظلومین کی مدد فرمائے اور ان کی حمایت کرنے والوں کی قوت و طاقت میں اضافہ فرمائے۔( آمین)