مضامین

فلسطین پر اسرائیلی جارحیت و ظالمانہ حملہ اور سعودی حکومت کی رضامندی

تحریر: خرم زکی
شیعہ نیوز: اور اسرائیلی حکومت نے فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام سے پہلے بے غیرت سعودی حکومت کو فیصلے میں شریک کیا اور یہ لعین سعودی حکومت تھی جس نے سب سے پہلے اسرائیلی حملے کی حمایت کی. طے یہ پایا کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کو غیر مسلح کرنے کے بعد اور غزہ میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے بعد غزہ کی دوبارہ تعمیر کا ٹھیکہ ان دو بےغیرت اور بے حیا عرب حکومتوں کو دیا جاۓ گا.اسرائیلی وزارت دفاع کے اہلکار آموس گیلاد نے اعتراف کیا کہ اس وقت اسرائیل کے تعلقات ہمسایہ عرب حکومتوں سے بہترین سطح پر ہیں. یہ بھی بات ریکارڈ پر ہے کہ حماس پر اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے لیۓ سعودی حکومت ہی نے مصر کے ذریعے دباؤ ڈلوایا تھا. موساد اور سعودی (صیہونی پڑھیں) انٹیلیجنس ادارے مستقل ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن کسی نام نہاد اسلامی جماعت میں اتنی جرات نہیں کہ اس سچ کو سر عام بیان کر سکے. مصر میں مرسی حکومت کی برطرفی میں بھی سعودی اور اسرائیلی حکومتوں کی مرضی و رضامندی شامل تھی اور اسی طرح ایران کے معاملے پر بھی اسرائیل اور سعودیہ کا مؤقف و مفادات مشترکہ ہیں. ایران پر حملے کے لیۓ سعودی فضائی حدود کے استعمال کی بات ہو یا ایران کے موجودہ نیوکلیئر پروگرام کو سبوتاژ کرنے کا منصوبہ، سعودی حکومت دل و جان کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایران کے خلاف بیشتر اسرائیلی منصوبوں کو سعودی حکومت ہی فنڈ و سپورٹ کر رہی ہے اور ان ایران مخالف منصوبوں پر سرمایہ کاری کر رہی ہے. کیا وجہ ہے کہ بے غیرت سعودی حکومت ایک بستر ایک چادر میں اسرائیلی حکومت کے ساتھ لیٹی نظر آتی ہے ؟ کیوں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جب دونوں ممالک اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہیں تو دونوں کو بالکل ایک جیسا احساس ہوتا ہے اور وہ احساس ہے خوف کا. دونوں ممالک کا خیال یہ ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک کو صرف قبضہ اور جارحیت کے ذریعہ ہی قابو میں رکھ سکتے ہیں، جیسا کہ اسرائیل نے لبنان اور سعودی حکومت نے یمن میں کیا یا پھر دوسرا طریقہ پڑوسی ممالک میں بغاوت، شورش اور دہشتگردی کو فنڈ کرنا ہے جیسا کہ ان دونوں ملکوں نے لیبیا، شام اور مصر میں کیا. مصر میں صدر مرسی کی جمہوری حکومت کا تختہ سعودی اور اسرائیلی سازشوں سے الٹ دیا گیا، شام میں بشار الاسد کی پاپولر حکومت کے خلاف القاعدہ اور داعش جیسی تکفیری خارجی دہشتگرد جماعتوں کو سپورٹ کیا گیا اور اسی طرح لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت کا تختہ القاعدہ عناصر کی مدد سے الٹا گیا.سعودی اور صیہونی اسرائیلی حکومت کے دوست اور دشمن بھی یکساں اور ایک ہیں. ایران، حماس اور اخوان المسلمون اسرائیل کے بھی دشمن ہیں اور سعودیہ کے بھی. اور دونوں کے اتحادی اور دوست بھی ایک ہی ہیں. امریکہ اور برطانیہ کی ملٹری-انڈسٹریل لابی، الفتح اور علاقے کے دیگر ضمیر فروش لوگ ان دونوں ممالک کے قریبی دوست ہیں. اسرائیل اور سعودی عرب کی دوستی کا سلسلہ کچھ نیا نہیں. فرق صرف اتنا ہے کہ آج یہ سب کچھ کھل کر اور سر عام ہو رہا ہے پہلے جو چھپ کر ہوتا تھا. سعودی عرب کے لعنتی حکمران شاہ عبد الله کا بھتیجا شہزادہ ترکی اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات اور رابطوں کا پبلک فیس ہے. یہ رابطے پہلی دفعہ اس وقت منظر عام پر آۓ جب سعودی حکومت نے ایک اسرائیلی مصنف کی کتاب کو سعودیہ سے پبلش کرنے کا فیصلہ کیا. اسی لعین شہزادے نے مئی کے مہینے میں برسلز میں اسرائیل کے سابقہ انٹیلیجنس چیف جرنیل آموس یادلن سے بھی ملاقات کی تھی. یہ جرنیل آموس وہی ظالم شخص ہے جس نے ترکی کے بحری جہاز ماوی مارمرا پر حملہ کر کے ٩ ترکوں کو اس وقت قتل کر دیا تھا جب وہ غزہ میں امداد پہچانے والے فلوٹیلا کا حصہ تھے. یہی ملعون شہزادہ ترکی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا سب سے بڑا اعلانیہ حامی ہے. اس نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی حمایت میں اسرائیلی اخبار میں ایک مضمون بھی لکھا تھا. لیکن اسرائیل کے ساتھ ان سعودی تعلقات کے لیۓ جس چیز کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے وہ تھی فلسطین کی آزادی اور تحریک مزاحمت. اور جلد ہی ایسا ہوا کہ سعودی معاشرے کے اکثر “دانشور” فلسطینی کاز سے انحراف کرتے گئے اور فلسطین کی اسرائیلی قبضہ سے مکمل آزادی کے ہدف سے دستبردار ہو گئے.اسرائیل کی اتحادی حکومتیں بشمول سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات غزہ میں جس امن کا خواب دیکھ رہی ہیں یعنی حماس کو تباہ و برباد کر کے اس کی فوجی قوت کا خاتمہ وہ باقی سب کو تو قبول ہو سکتا ہے لیکن فلسطین کے مظلوم و نہتے عوام کو ہرگز قبول نہیں. ملعون شہزادہ ترکی کے باپ شاہ فیصل کی روح یہ سب دیکھ کر اپنی قبر میں تڑپ رہی ہو گی

اسرائیل سعودی دوستی و اتحاد کا دامن خون میں ڈوبا ہوا ہے اور یہ خون کسی اور کا نہیں مظلوم فلسطینی عوام کا ہے، مظلوم فلسطینی بچوں اور عورتوں کا جو سینکڑوں کی تعداد میں حالیہ اسرائیلی بربریت کا نشانہ بنے ہیں

دوسری جانب قارئین کو یہ پڑھ کر دکھ بھی ہو گا، حیرت بھی ہو گی اور ہمارے سر شرم سے جھک جائیں گے جب ہمیں پتہ چلے گا کہ ان بے غیرت، بے شرم اور بے حیا لعین عرب حکمرانوں نے مظلوم فلسطینی عوام کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے ہی پر بس نہیں کی بلکہ ٹھیک اس وقت جب ان ہی عرب بادشاہوں کی مرضی اور رضامندی سے اسرائیل مظلوم فلسطینی عوام کی نسل کشی اور قتل عام کر رہا تھا تو اس وقت فلسطینی عوام کی خدمت اور مدد کے بہانے فلسطین جانے والی متحدہ عرب امارات کے ڈاکٹروں پر مشتمل ٹیم اسرائیل ک
ے لیۓ حماس کے خلاف در حقیقت جاسوسی کے فرائض سرانجام دے رہی تھی. متحدہ عرب امارات سے آنے والے وہابی ڈاکٹروں پر مشتمل ٥٠ افراد پر مبنی اس گروپ نے اسرائیل کو غزہ کی حساس تنصیبات اور حماس کے راکٹوں سے منسلک معلومات و راز اسرائیل کو فراہم کیۓ. متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے بھیجا جانے والا یہ واحد گروپ تھا جس کے لیۓ مصر کی سعودی پٹھو حکومت نے اپنے دروازے کھولے اور اس ٹیم کو غزہ میں داخلے کی اجازت ملی. غور کریں کس طرح یہ وہابی عرب حکومتیں مسلمانوں کے خون سے غداری کر رہی ہیں اور کس طرح نام نہاد اسلامی جماعتیں ان عرب حکمرانوں کے سامنے بھیگی بلی کی طرح خاموش بیٹھی ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button