ڈیرہ اسماعیل خان میں یوم عاشور
شیعہ نیوز (ڈی آئی خان) پاکستان بھر کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی یوم عاشورہ کے جلوس اپنے روایتی اور مقررہ راستوں سے ہوتے ہوئے وقت مقررہ وقت پر کوٹلی امام حسین (ع) پہنچے۔ جلوس کے شرکاء راستے میں نوحہ خوانی، سینہ زنی اور زنجیر زنی کرتے رہے۔ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ڈیرہ اسماعیل خان میں نویں اور دسویں محرم الحرام کیلئے موبائل سروس عارضی طور پر معطل رہی۔ میڈیا کے نمائندوں کو کوریج کیلئے ڈی پی او آفس سے خصوصی پاسسز جاری کئے گئے تھے۔ یوم عاشورہ کے حوالے سے ڈی آئی جی ڈیرہ عبدالغفور آفریدی، ڈپٹی کمشنر ڈیرہ وقار علی خان اور ڈی پی او ڈیرہ صادق حسین بلوچ کی نگرانی میں ضلع بھر میں سکیورٹی انتہائی ہائی الرٹ رہی۔ کسی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے اعلٰی افسران وقتاً فوقتا جلوسوں کے راستوں کی خود نگرانی کرتے رہے۔ امن کمیٹی کے ممبران بھی انتظامیہ کے ہمراہ موجود رہے۔ جلوس کے راستوں کو کنٹینرز اور خار دار تاریں لگا کر ایک روز قبل ہی بند کردیا گیا تھا جبکہ ڈیرہ شہر کے داخلی و خارجی راستوں کو چشمہ بیراج سے رمک اور ڈیرہ دریا خان پل تک مکمل سیل کیا گیا تھا۔ ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر بہاول خان کی نگرانی میں پولیس لائن سے پانچ ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں کو اشیائے ضرورت فراہم کی گئیں۔ سکیورٹی اقدامات کے باعث موٹر سائیکل کی سواری پر بھی نویں اور دسویں محرم کو پابندی رہی۔ بلند تعزیوں کی وجہ سے بجلی، ٹیلیفون کی تاریں بھی عارضی طور پر منقطع کی گئی تھیں جس کے باعث ان سہولیات کی فراہمی بھی عارضی طور پر معطل رہی۔
یوم عاشورہ کا مرکزی جلوس امام بارگاہ تھلہ نمبر 12 بموں شاہ سے شروع ہو کر حسینیہ چوک، جانز ہوٹل، صدر بازار اور بنوں روڈ سے ہوتا ہوا کوٹلی امام حسین (ع) پہنچا، جس میں دیگر تھلہ جات سے تعزیے کے مرکزی جلوس بھی شامل ہوتے گئے۔ دوسرا مرکزی جلوس جامع مسجد یاعلی (ع) المعروف مسجد لاٹو فقیر سے برآمد ہوا، جو تھلہ حیدر شاہ شیرازی، سے ہوتا ہوا علمدار چوک سے گزر کر صدر بازار کے راستے کوٹلی امام حسین (ع) میں اختتام پذیر ہوا۔ بستی استرانہ سے نکلنے والا مرکزی جلوس پرانی سبزی منڈی کے راستے کمشنری بازار میں داخل ہوا، جہاں تھلہ قصابان سے برآمد ہونیوالا جلوس بھی اس میں شامل ہوگیا۔ دوسری جانب تھلہ لعل شاہ سے برآمد ہونیوالا تعزیے کا جلوس بھی چوگلہ کے مقام پر اسی کا حصہ بن گیا۔ گلی جوگیانوالی میں تھلہ شاہین، اور سمندے والے تھلے کے جلوس بھی اس جلوس کا حصہ بنے۔ تعزیوں کا یہ جلوس اپنے وقت مقررہ پر کوٹلی امام حسین (ع) میں پہنچا۔ کوٹلی امام حسین (ع) میں عزادارن نے نماز ظہرین ادا کی۔ بعد از نماز تمام جلوس اپنے روایتی راستوں اور ذرائع سے اپنے آغاز کے مقامات پر پہنچ کے اختتام پذیر ہوئے۔
ڈی آئی خان میں یوم عاشور کے موقع پر کل 44 جلوس عزا برآمد ہوئے، جبکہ محرم الحرام میں جلوسہائے عزا کی تعداد 175 سے متجاوز تھی۔ بعد از یوم عاشور امام بارگاہوں میں شام غریباں برپا کی گئی۔ دوسری جانب کینٹ پولیس نے مختلف امام بارگاہوں کے چار متولیان کے خلاف الگ الگ مقدمات درج کرلئے ہیں۔ محرم الحرام کے دوران کے زیارت حضرت علی (ع) کچی پائند خان سے قدیمی جلوس نکالنے پر ارشاد حسین ولد صادق حسین کیخلاف ایس ایچ او تھانہ کینٹ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔ تھویا فاضل سے نو محرم الحرام کا روایتی جلوس نکالنے پر امام بارگاہ حضرت غازی عباس علمدار کے متولی عابد حسین ولد نذیر حسین سکنہ تھویا فاضل کے خلاف ایس ایچ او تھانہ کینٹ کی مدعیت کی 188PPC کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہی جلوس ہے، ماضی میں جس کو پلانٹڈ بم دھماکے سے نشانہ بنایا گیا تھا اور اس وقت صفائی پر مامور عملے کے خلاف نوٹس لیا گیا تھا کہ انہوں نے اس کچرے کو ہٹایا کیوں نہیں جس میں بم چھپایا گیا تھا۔ دو مزید مقدمات کینٹ پولیس نے تھلہ شاہین کے متولی مطیع ولد فیض اللہ اور تھلہ سمندے والا کے متولی عارف رضا ولد منظور حسین کے خلاف درج کئے گئے ہیں۔ ان مقدمات میں پولیس نے موقف اختیار کیا ہے کہ دونوں امام بارگاہوں کے تعزیے دس سے پندرہ منٹ تاخیر سے کوٹلی امام حسین (ع) میں پہنچے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پندرہ منٹ کی تاخیر کی بنیادی وجہ بھی انتظامی نااہلی تھی۔ روز عاشور جلوسوں میں شامل عزادار ننگے پاؤں ہوتے ہیں، جبکہ ہمیشہ ٹی ایم اے کا عملہ سڑکوں پر موجود گڑھے بھرنے کیلئے عارضی طور پر مٹی یا ریت ڈالتا ہے۔ اس مرتبہ کمیٹی کے عملے نے فنڈز بچانے کیلئے سڑکوں پر ریت یا مٹی کے بجائے بجری کا خاکہ ڈالا، تعزیوں کے طویل روٹس گرد آلود ہونے اور باریک بجری کی وجہ سے پاؤں زخمی ہونے کے باعث عزادار وقت مقررہ سے دس منٹ تاخیر سے کوٹلی امام میں داخل ہوئے، جس کو بہانہ بناکر کینٹ پولیس نے متولیان کے خلاف مقدمات درج کرلئے ہیں۔
روز عاشور کوٹلی امام حسین (ع) میں یو این ایچ سی آر کا ٹینٹ سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ جس میں شیعہ علماء کونسل اور جعفریہ سٹوڈنٹس کی جانب سے میڈیکل کیمپ قائم کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ تقریباً دس سال قبل کوٹلی امام میں روز عاشور تمام امام بارگاہوں اور تمام شیعہ تنظیموں کی جانب سے کیمپ لگائے جاتے تھے۔ جن میں لنگر، سبیل، ابتدائی طبی امداد کے خصوصی انتظامات کئے جاتے تھے۔ سکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر انتظامیہ نے ہر قسم کے کیمپ لگانے پر پابندی عائد کردی تھی۔ ماتمی عزادار جب تعزیے کے جلوس کے ہمراہ کوٹلی امام میں د
اخل ہوئے تو اقوام متحدہ کے ادارے کا ٹینٹ دیکھ کر حیران رہ گئے، ٹینٹ کے باہر دو لیڈی پولیس کانسٹیبل بھی تعینات کی گئی تھیں، حالانکہ روز عاشور کوٹلی امام میں خواتین کا داخلہ ممنوع ہے۔ عزاداروں نے جب یو این ایچ سی آر کے ٹینٹ میں داخل ہوکر دیکھا تو اس میں شیعہ علماء کونسل اور جعفریہ اسٹوڈنٹس کی جانب سے ابتدائی طبی امداد کا کیمپ لگایا گیا تھا۔ عزاداروں نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا شیعیان علی (ع) کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں کہ عاشور کے مرکزی مقام پر وہ اپنا کیمپ قائم کرسکیں۔؟ کیا کوٹلی امام میں ہونیوالا اہتمام یو این ایچ سی آر کی فنڈنگ سے ہو رہا ہے۔؟ کیا شیعہ علماء کونسل اور جعفریہ سٹوڈنٹس اقوام متحدہ کے اس ادارے سے براہ راست امداد لیتے ہیں۔؟ موقع پر موجود شیعہ علماء کونسل کے رہنماء مولانا اظہر ندیم نے میڈیا کو بتایا کہ یہ کیمپ ایس یو سی کے صوبائی صدر کی نگرانی میں قائم کیا گیا ہے، اور یہ ٹینٹ کئی سالوں سے فالتو پڑا ہوا تھا تو اس لیے اسے استعمال میں لایا گیا ہے۔ عزاداروں نے جواب میں کہا کہ اگر یہ امدادی کیمپ جامعۃ النجف کو ملا بھی ہے تو بھی اقوام متحدہ کے ادارے کے نام کی تشہیر آج ہی کے دن کیوں کی جارہی ہے۔ موقع پر موجود ایک کارکن کا کہنا تھا کہ سیلاب کے دوران یہ ٹینٹ ہمیں ملے تھے جو استعمال میں نہیں لائے گئے۔ عزاداروں کا اصرار تھا کہ ہمیں ملت تشیع کے کسی تنظیم یا فرد سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں ہے مگر اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کا کردار سرزمین ایران، عراق، شام، پاکستان میں شیعہ دشمنی پر مبنی ہے اور یہ امریکہ کی لونڈی کا کردار ادا کررہی ہے۔ جبکہ مردہ باد امریکہ کے نعرے اور اقوام متحدہ کے کردار پر سب سے زیادہ تشویش کا اظہار بھی آپ کی جانب سے کیا جاتا ہے، لہذا ہم اپنے خالصتا مذہبی پروگرام میں مذہبی مقام پر اس ادارے کی یہ تشہیر گوارا نہیں کرسکتے۔ عزاداروں کی جانب سے ایک ہی مطالبہ پیش کیا گیا کہ طبی کیمپ قائم رہے مگر اس ٹینٹ کو اتارا جائے یا یو این ایچ سی آر کے نام کو حذف کیا جائے۔ جس پر مولانا اظہر ندیم کی ہدایت پر جعفریہ اسٹوڈنٹس کے کارکنوں نے ٹینٹ کی نام والی جگہ پر پرانے کارپٹ کے ٹکڑے پھینک دیئے۔ عزاداروں کی جانب سے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اگر یو ایچ سی آر کے ادارے نے سیلاب زدگان کے لیے کیمپ بھجوائے بھی ہیں تو وہ سیلاب زدگان تک کیوں نہیں پہنچائے گئے اور طویل عرصے سے مدرسے میں کیوں پڑے ہیں۔؟