قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی، تم پہ میرے وطن کے خمینی سلام ہو
تحریر: ارشاد حسین ناصر
وہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی و قبائلی علاقے پاراچنار کی افغان سرحد پر واقع گاؤں پیواڑ میں سید فضل حسین الحسینی کے گھر میں پیدا ہوئے، اس دور دراز، دشوار گذار ،بلند و بالا پہاڑوں میں گھرے قبائلی گاؤں کے بچے کو خدا کے لطف و کرم سے جو مقام ملنا تھا اس کے بارے کسی کو خیال و خواب بھی نہیں آیا ہو گا۔ انتہائی نجیب و شریف خاندان سے تعلق اپنی جگہ عارف حسین الحسینی کو جس نے بھی عمر کے کسی بھی حصہ میں دیکھا، سنا یا نشست و برخواست کی ہے یا کسی بھی طرح قربت کا کوئی لمحہ اسے نصیب ہوا ہے وہ ان کی شہادت کے آج ستائیس برس گذر جانے کے بعد بھی ان کے ذکر پر دیواروں سے ٹکریں مارتا دکھائی دیتا ہے، اور اس کی زبان پر ایک ہی مصرع ہوتا ہے۔۔
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا ہے، ان کی دست بوسی کی سعادت بھی حاصل ہے، ان کی گفتگو بھی سامنے دوزانو ہو کر سنی ہے، انہیں مینار پاکستان کے تاریخی جلسہ گاہ میں بھی باطل کو للکارتے ہوئے سنا ہے، انہیں دعائے کمیل کے خدا سے راز و نیاز اور قربت الٰہی کے حصول کے لمحات میں بھی دیکھا ہے، انہیں مہمانوں کی تواضع و انکساری و عاجزی کے ساتھ انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے بھی دیکھا ہے، انہیں سادہ غذا سے تناول ماحاضر کی محفل میں بھی دیکھا ہے، انہیں اپنے ہاتھوں سے پیش کردہ چائے کی پیالی نوش کرتے پر لطف انداز میں بھی دیکھا ہے ، انہیں اپنے نام کے نعرے لگنے پر مسجد میں اعتراض کرتے بھی دیکھا ہے، انہیں نوجوانوں کے سوالوں کے جواب دیتے اور رہنمائی کرتے بھی دیکھا ہے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اگر خوشبو کا کوئی وجود ہوتا تو میں یہی کہتا کہ میں نے عارف حسین الحسینی کی شکل میں اسے دیکھا ہے۔۔ اگر کشش و جاذبہ کی کوئی مورت ہوتی تو میں یہی کہتا کہ وہ مورت عارف حسین الحسینی کی ہی تھی۔۔ اگر تقویٰ، اخلاص، سادہ زیستی کی کوئی صورت و تصویر مانگتا تو میں انہی کی تصویر کو پیش کر دیتا۔۔ اور اگر آج ستائیس برس گذر جانے کے بعد بھی ولایت فقیہ، امام خمینی، انقلاب اسلامی کا کوئی حقیقی عاشق، پیرو، جانثار کا پتہ پوچھتا تو میں اسے پیواڑ میں آرام فرما اس مرد قلندر کے شکستہ مزار پہ لے جاتا۔ تو اس کی زبان پر بے ساختہ یہی مصرعہ سنائی دیتا۔۔
تم پہ میرے وطن کے خمینی سلام ہو
جمعہ کا دن اپنی تمام تر فضیلت و اہمیت کے باوجود آج کل اہل پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا کیلئے ایک خطرناک دن بن گیا ہے، بہت سے ممالک سمیت پاکستان میں اس روز مساجد، عبادت گاہوں، مزاروں، درباروں پر جتنے حملے ہوئے ہیں وہ ایک ریکارڈ ہے اسی لیئے یہاں تو خصوصی طور پر اس دن خیریت کی دعائیں مانگی جاتی ہیں مگر ہمیں وہ جمعہ نہیں بھولتا جب5اگست 1988ء کی دمِ فجر تھی، جمعہ کا دن تھا، پشاور کے جی ٹی روڑ پر واقع جامعہ معارف الاسلامیہ میں ایک فائر ہوا، یہ ایک فائر ایک ملت کو یتیم کر گیا، ایک قوم کو بے آسرا کر گیا، ایک ملک میں قیادت کا نا ختم ہونے والا قحط پیدا کر گیا۔ دین خدا کے ماننے والوں سے ایک بلند پایہ دینی سیاستدان کو چھین گیا، روحانیت و معنویت کے متلاشیوں کو بھٹکتا ہوا چھوڑ گیا، شعور و فکر کے ارتقاء و بلندی کے خواہش مندوں کو اندھیری راہوں میں چھوڑ گیا۔ پاکستان کے نقشے پر استعمار کے حقیقی مخالف ایک عالم دین کے پاکباز خون کے انمٹ نقوش چھوڑ گیا، امید انقلاب کی روشن شمع کو آندھیوں میں جلتا ہو چھوڑ گیا، یہ گولی کس نے اور کیوں چلائی اور اس ایک فائر سے کون قتل ہوا۔۔ اور کیوں قتل کیا گیا ؟ قائد مظلوم علامہ سید عارف حسین الحسینی کو نماز فجر کی تیاری کے وقت ان کے پشاور میں واقع مدرسہ جامعہ معارف الاسلامیہ کی بالائی منزل کی سیڑھیوں میں اس وقت شہید کیا گیا جب آپ پہلی منزل پر واقع وضو گاہ سے نیچے اتر رہے تھے، جمیل اللہ نامی قاتل نے ایک فائر کیا جو علامہ سید عارف حسین الحسینی کے دل میں پیوست ہو گیا، اور ان کی المناک شہادت کا سبب بن گیا۔ بعد میں سامنے آنے والے حقائق سے معلوم ہوا کہ اس قاتل کا انتخاب اس لیئے کیاگیا تھا کہ وہ پسٹل سے نشانہ لینے کا ماہر تھا مگریہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ جمیل اللہ نے عدالت کے روبرو اقرار کیا کہ اس سے دوسرا فائر اس لیئے نہ ہوا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مجھ سے وقت کا پیغمبر قتل ہو گیا ہے، پہلا فائر میں نے ان کے چہرے کو دیکھے بغیر کیا تھا، جب ان کا چہرہ سامنے آیا تو اس کے بعد ہاتھ کو ایسا لگا جیسے شل ہو گیا ہے۔ مجھ میں دوسرا فائر کرنے کی طاقت ختم ہو گئی تھی۔
آج اس بات کو ستائیس برس بیت رہے ہیں، یہ ستائیس برس دراصل ہماری ملی یتیمی کا عرصہ ہے ہم نے یہ تمام عرصہ اپنے محبوب قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی شہید کے افکار و کردار اور چھوڑے ہوئے نقوش کی روشنی میں ان کے کارروان کو آگے بڑھانے میں گذارا ہے مگر خدا گواہ ہے کہ ایک دن بھی ان کی یاد سے غافل نہیں ہوئے، ان کے رستے کو نہیں بھولے ان کی بتائی ہوئی منزل کو پانے کی جدوجہد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں مڑے۔ یہ ایک اصولی بات ہے کہ شخصیات کو دیکھنا، پرکھنا اور جاننا ہو تو ان کے نظریات کو دیکھا جاتا ہے، افکار کو تولا جاتا ہے، کردار کو پڑھا جاتا ہے، خدمات کو جانچا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی ہم شہید کو ایک کامل رہنما کے طور پر دیکھ سکتے ہیں قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی کی ابتدائی زندگی جو پاراچنار میں گذری اس کے بارے ان کے بچپن کے رفقاء سے پوچھیں تو ان کے زہد و تقویٰ کے معترف نظر آتے ہیں، اگر پاراچنار سے نجف کا زمانہ جب آپ د
ین کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے وہاں 1967ء میں تشریف لے گئے اس دور کے ساتھیوں سے احوال پوچھیں تو ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ علامہ سید عارف حسین الحسینی ایک خالص عبد خدا اور دین کی تعلیم میں گہری دلچسپی کے ساتھ اس دور میں جب امام خمینی ایران سے جلا وطن ہو کر عراق تشریف لے گئے تھے ان کی انقلابی تحریک کا حصہ ہوتے تھے اور اکثر و بیشتر نماز امام خمینی کی اقتدا میں ادا کرتے،انہیں امام خمینی کی ذات سے جنوں کی حد تک عشق ہو گیا تھا جسے وہ کسی بھی طرح چھپا نہ سکتے تھے حالانکہ عراق میں وہ ایک عام طالب علم تھے جو کئی مسائل سے دوچار رہتے ہیں اور اس قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث ملک بدر بھی ہو سکتے تھے مگر آپ نے اس کی پرواہ نہ کی۔ نجف و قم میں دینی علوم حاصل کرنے کے بعد وہ جب پاکستان تشریف لائے تو ان کے پاس امام خمینی کا وکالت نامہ و نمائندگی کا خصوصی خط تھا جسے بارڈر حکام نے پکڑ بھی لیا۔
جب آپ قم و نجف سے اعلٰی دینی تعلیم حاصل کر کے واپس پہنچے تو اپنے آبائی علاقہ یعنی پاراچنار میں تدریسی سرگرمیوں میں مشغول ہو گئے پاراچنار کے دینی مدرسہ جامعہ جعفریہ جہاں سے آپ نے ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی تھی میں چند سو روپوں پر استاد مقرر ہوئے۔ یہیں سے اجتماعی و قومی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہم دیکھتے ہیں کہ قومیات میں آپ نے ہمیشہ آگے بڑھ کے اپنا کردار ادا کیا۔ آپ ان کو مفتی جعفر حسین کی تحریک میں بھی کردار ادا کرتا دیکھ سکتے ہیں وہ اسی کے معرکے میں پاراچنار سے ایک بھاری وفد کے ساتھ شریک تھے ان کے ساتھ قبائلیوں کی بڑی تعداد آئی تھی جو اپنی قیادت کا ہر حکم ماننے کیلئے بیتاب تھی، بعد ازاں قائد ملت علامہ مفتی جعفر حسین قبلہ کی وفات کے بعد 10 فروری1984ء کو انہیں قائد ملت منتخب کر لیا گیا۔ وہ صرف ساڑھے چار سال کا عرصہ تک اس ذمہ داری پر فائز رہے اس مختصر عرصہ میں انہوں نے جو کام کیا وہ ایک تاریخ ہے، اس کا تذکرہ کرنے سے ہی کئی کتب کا مواد بن جاتا ہے، علامہ سید عارف حسین الحسینی نے سیاست کے میدان میں اس طرح قدم رکھا کہ وقت کا آمر پریشان ہو گیا اور ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بھرپور کوششیں کیں، پہلے تو انہیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی، ان سے ملاقات کی خواہش کا شدت سے اظہار کیا گیا۔ جب شہید نے آمر اور عوامی حقوق غصب کرنے کی وجہ سے ملنے سے انکار کر دیا تو شہید کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے انہیں راستے سے ہٹانے کی کئی سازشیں ہوئیں مگر انہوں نے اس ملک اور ملت کیلئے اپنی خدمات کا سلسلہ ترک نہ کیا اور نہ ان میں کوتاہی کے مرتکب پائے گئے بلکہ بعض علماء کی طرف سے انہیں یہ کہا گیا کہ وہ زیادہ تیز چل رہے ہیں، انہیں ملک و ملت کا اس قدر درد تھا کہ اس مختصر عرصہ قیادت میں انہوں نے گلگت بلتستان کے فلک بوس پہاڑوں سے لیکر اندرون بلوچستان کے دور دراز صحرائی علاقوں تک دورہ جات کیئے اور ملت کو ایک لڑی میں پرو دیا، جنرل ضیاء الحق کا زمانہ بدترین آمریت کا زمانہ تھا جس میں سیاست دانوں کو سزائیں دینے کیلئے فوجی عدالتیں کام کرتی تھیں اور سیاسی ورکرز کیلئے شاہی قلعہ جیسی بدترین جیلیں بنائی گئی تھیں جہاں اگر کوئی جاتا تھا تو واپسی مشکل ہو جاتی تھی، علامہ سید عارف حسین الحسینی نے سیاست کے میدان میں وقت کے آمر پر شدید تنقید کی اور جمہوریت کی بحالی کیلئے سیاستدانوں کی جدوجہد جو MRD کے پلیٹ فارم پر جاری تھی کا بھرپور ساتھ دیا آمر ضیاءالحق کے ریفرنڈم کی بھرپور مخالفت کی اور ملک بھر میں اپنے چاہنے والوں کو اس کے بائیکاٹ کا حکم دیا، سیاسی میدان میں اپنے وجود کے اظہار و طاقت و قوت دکھانے کیلئے مینار پاکستان کی عظیم جلسہ گاہ میں ایک بڑی کانفرنس بعنوان قرآن و سنت کانفرنس منعقد کی اور ایک منشور پیش کیا، جبکہ اس موقعہ پر ایک یادگار خطاب بھی فرمایا جو آج بھی رہنمائی کا ایک ذریعہ ہے۔
شہید قائد کو آپ پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے بانی اور سرخیل کہہ سکتے ہیں علامہ سید عارف حسین الحسینی نے اپنے دور قیادت میں مسلم امہ کے اتحاد و وحدت کیلئے بھرپور کاوشیں کیں اور مختلف فرقوں کے ماننے والوں کو اسلام کے نام اور مشترکات پر جمع ہونے کی دعوت دی ۔وہ ہمیشہ اپنے ہمراہ کسی نہ کسی اہل سنت عالم دین کو دورہ جات میں ساتھ رکھتے تھے، ان کا اتحاد و وحدت امہ پر موقف بہت دوٹوک ہوتا تھا اور ان کے اس موقف کی بدولت یہ امید ہونے لگی تھی کہ دینی جماعتیں ملک کو بدترین آمریت سے نکالنے کیلئے اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کے عملی نفاذ کیلئے مل بیٹھتیں،ضیا ء الحق کے نام نہاد شریعت بل کو علامہ احسان الٰہی ظہیر جو اس دور میں اہلحدیث مکتب کی معروف قیادت تھے وہ بھی شہید عارف الحسینی کے موقف کے ساتھ تھے۔ وہ فکر امام خمینی کے خالص اور سچے پیرو تھے اسی لیئے شہید عارف حسین الحسینی پاکستان کو عالمی استعمار کے چنگل سے آزادی دلوانا چاہتے تھے انہوں نے اپنے ہر خطاب اور گفتگو میں اس حوالے سے عوام اور نوجوانوں کو معلومات سے نوازا اور ان کے افکار و شعور میں یہ بات بٹھا دی کہ جب تک ہم اس ملک کو استعمار اور مغرب سے آزاد نہیں کروا لیتے اور اپنے مقدر کے فیصلے اپنے ایوانوں میں نہیں کرتے ہم ترقی نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ایک جگہ فرمایا کہ "تمام مکاتب فکر کے علماء اور دانشور ملک میں نظام اسلام کے قیام کیلئے اکٹھے ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ بے شمار قربانیوں کی بدولت حاصل ہونے والی آزادی 40برس گزر جانے پر بھی کہیں محسوس نہیں ہوتی، سامراجی آقاؤں سے حاصل ہونیوالی آزادی کے باو
جود ان کے چھوڑے ہوئے نظام کی بدولت آزادی کے احساس سے ہم آج بھی محروم ہیں”۔
ایک اور جگہ گفتگو کرتے ہوئے علامہ عارف الحسینی کا فرمانا تھا کہ "دنیا میں اسلام دو طرح کے ہیں، ایک اسلام حضرت محمدؐ کا اسلام ہے اور دوسرا امریکہ اور روس کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ہے شریعت آرڈیننس دینے والوں نے اسلام اور قرآن کی بالا دستی کی بجائے امریکی نظریات سے قریب خود ساختہ اسلام کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی سازش کی ہے کیونکہ انہیں وہ اسلام قبول نہیں ہے جس میں جذبہ جہاد ہو۔ یہ منارہ ٗ نور، یہ خمینی کی محفل کا چمکتا ستارہ ، یہ دلوں پر حکومت کرنے والا، یہ خوشبو کا وجود، یہ انقلاب کا استعارہ، یہ ولایت کا نقارہ، صرف ساڑھے چار سال تک افق پاکستان پر بہ طور قائد چمکا اور ایک عالمی سازش کے تحت 5اگست 1988ء کی دم فجر اپنے خوابوں کی تعبیر جامعہ معارف الاسلامیہ پشاور میں ہم سب کو داغ جدائی دے کر اپنے ابدی مقام کی طرف پرواز کر گیا، بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی نے ان کی شہادت پر ایک اعلیٰ وفد آیۃ اللہ جنتی کی قیادت میں پاکستان بھیجا جنہوں نے ان کا جنازہ پڑھایا اور امام خمینی نے اس حوالے سے تاریخی تعزیتی پیغام بھی جاری کیا، جس میں انہوں نے فرمایا کہ میں آج اپنے عزیز فرزند سے محروم ہو گیا ہوں اور پاکستان کے عوام کو تاکید کی کہ وہ علامہ عارف حسین الحسینی کے افکار کو زندہ رکھیں۔ شہید کے افکار کو سمجھنے کیلئے شہید کے افکار، سیاسی، دینی،تنظیمی، مجالس عزا، اور دیگر موضوعات پر العارف اکیڈمی نے کئی کتب شائع کی ہیں جنہیں پڑھے بغیر کوئی بھی شائد ان افکار زندہ کو سمجھنے کا دعوی نہیں کر سکتا۔