مضامین
پاکستان کی مجبوری اورسعودیہ کی امریکہ نوازی
ریمنڈ ڈیوس کے مسلے کو لیکر پاکستان کے طول عرض میں مختلف تبصرے کئے جارہے ہیں اور جتنے منہ اتنی باتیں، لیکن سو بات کی ایک بات کہ پاکستان اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کسی بھی مسئلے میں امریکہ سے ٹسل لے سکے۔ البتہ ایسا ہے نہیں، بلکہ یہ پاکستان کے حکمراں طبقے اور سیاستدانوں کی اپنی سوچ اور غلامانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے گلوں میں لٹکی ٹائی دراصل ٹائی نہیں بلکہ غلامی کی علامت ہے جسے وہ ہر موسم میں پہننا پسند کرتے ہیں حالانکہ جنکی وہ تقلید کرتے ہیں وہ موسم کا خیال رکھ کر ٹائی باندھتے ہیں اب ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں سے جو سوٹ پہنے اور ٹائی باندھنے میں مختار نہ ہوں اور انتہائی سڑی ہوئی گرمی میں بھی اپنے گلے میں ٹائی باندھنے پر مجبورہوں وہ بھلا کس طرح ملک و قوم کے استقلال کا خیال رکھ سکتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ حکمراں طبقہ چونکہ عوام پر حکمرانی کرنے کا تصور لیکر پیدا ہوتا ہے اور نسل در نسل اسی فکر اور انداز میں زندگی گذارتا ہے لہذا خود کو عوام اور معاشرے سے الگ تھلگ رکھتا ہے ، حالانکہ جن لوگوں سے وہ خود کو الگ تھلگ رکھتے ہیں حکومت کرنے کے لئے وہ ان ہی کے محتاج ہوتے ہیں ۔تیسری دنیا کے ملکوں کا المیہ یہ کہ وہاں جمہوریت ہو یا ڈکٹیٹر شپ ، تھوڑے بہت فرق کے ساتھ خاندانی اور شخصی حکمرانی موجود ہے ۔ اگر پارٹیوں کا وجود ہے تو وہ بھی ذاتی اور شخصی، مثلا بھٹو جیسے عالمی لیڈر کے بعد ان کی بیٹی بینظیر اور بینظیر کے بعد کمسن سال ہونے کے باوجود ان کا بیٹا بلاول، بھٹو کو تختہ دار پر چڑھانے والے ضیالحق کے بعد اعجاز الحق کو سامنے لیا گیا مگر قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا اور باپ کی وارثت ان کی بجائے کسی اور نے ہتھیالی ۔ پاکستان کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ نون پر جب عتاب آیا اور جنرل پرویزمشرف نے نواز شریف کو اقتتدار سے بے دخل کیا تو ان کا سارا خاندان ان کا جانشین بن گیا بھائی تو پہلے ہی سے پنجاب جیسے صوبے کے وزیر اعلی تھے ہی، بیگم کلثوم نواز اور حمزہ شریف جیسے لوگ بطور پارٹی لیڈاران، میڈیا پر چھاگئے ۔پاکستان کے پڑوس میں ہندوستان جیسی بڑی جمہوریت میں بھی کم وبیش یہی حال ہے ۔ کم از کم حکمران جماعت کانگریس تو خاندانی بنیادوں پر ہی چل رھی ہے ۔ سن 1983 میں آنجہانی اندرا گاندھی جب اپنے سکھ محافظوں کےہاتھوں میدان سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حذف کی گئیں تو ان کے جانشین کے طور پر کانگریس جیسی بڑی جماعت بھی ان کے بیٹے راجیو گاندھی کی جگہ کوئی اورچہرہ سامنے نہ لاسکی جو اس وقت کسی فضائی کمپنی میں بطور پائلیٹ کام کررہے تھے اور جب راجیو گاندھی اپنی والدہ کے انجام سے دوچار ہوئے تو ان کی اطالوی نژاد اھلیہ سونیا گاندھی کو پارٹی کی قیادت سونپ دی گئی۔لب کلام یہ کہ جہاں اقتتدار سے چمٹے رہنے کا یہ حال ہو وہاں ملک و ملت کو کون خاطر میں لائے گا ۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ علاقے کی رجعت پسند حکومتیں خصوصا سعودی عرب کا کردار نہایت بے شرمانہ ہے جو اس پورے خطے اب تک امریکی دلال کے طورپرکام کرتا رہا ہے۔ امریکہ کہنے پر ہی اس نے پاکستان پر القائدہ اور طالبان کو مسلط کیا اورامریکہ کہنے پرہی اس نے ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں دلالی کی ۔ پاکستانی عوام سعودی حکومت سے یہ سوال کرنے حق بجانب ہیں کہ سعودی عرب، عافیہ صدیقی کی نجات کے لئے کہ جس کا جرم تک ثابت نہیں ہوسکا، کوئی قدم اٹھائےگا ؟ پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے بقول ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرنا تو پاکستان کی مجبوری تھی لیکن سعودی عرب کو کونسی مجبوری لاحق تھی کہ وہ لاشوں کا سودا کرانے میں مقتولین کے ورثا پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرتا اور انہیں عمرے کی ادائیگی کے لئے مکے شریف آنے کی دعوت دے کر اس بات پر مجبور کرتا کہ خوں بہا لیکر خاموشی اختیار کرلیں ۔
Source: Radio Tehran