پاکستان کیخلاف نفسیاتی جنگ اور میڈیا کا کردار
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ
بحرانوں میں گھری ہوئی پاکستانی قوم کے اعصاب کا امتحان تقسیم کے وقت سے ہی جاری ہے۔ زمانے کی روز افزوں ترقی کیساتھ جنگی وسائل کا استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان کو بھارت جیسے ازلی دشمن کا سامنا ہے۔ ملک کو دوٹکڑے کرنے اور جنگیں مسلط کرنے کے باوجود دشمن کے وار جاری ہیں۔ اسوقت مسلح سرکشی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو زبردست نفسیاتی جنگ کا بھی سامنا ہے۔ یہ دراصل پاکستانی قوم کے اذہان اور قلوب کا امتحان ہے۔ اسکولوں پر دہشت گردوں کے حملے اس کی اہم مثال ہیں۔ دوسرا نونہالوں کے اغوا کی وارداتیں اور اس سے زیادہ بچوں کے اغوا اور گمشدگی کے متعلق پروپیگنڈہ ہے۔ دنیا کے دوسرے مععاشروں کی طرح پاکستانی سوسائٹی بھی جرائم سے پاک نہیں، لیکن مکار دشمن کی طرف سے دہشت گردی سے بچوں کے اغوا تک کے سارے حربے وطن عزیز میں بسنے والوں کے حوصلے توڑ کر انکا اعتماد چھننے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ دشمن کو معلوم ہے کہ سرحدوں پر حملہ اس کے بس میں نہیں، اس لیے پاکستانی قوم کو اندر سے کمزور کرنے اور اندرونی کمزوریوں سے سوئے استفادہ کر کے اپنا ہدف حاصل کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ نفسیاتی جنگ، پروپیگنڈہ اور افواہیں اسکا کامیاب ہتھیار ہیں۔ دشمن جانتا ہے کہ اعصابی جنگ کے مقابلے میں نفسیاتی جنگ کے حربہ میں یقینی کامیابی مضمر ہوتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ جس قوم یا جماعت کو بھی زیر کرنا مقصود ہو، پہلے اس کی نفسیات اور اس کی کمزوریوں کا صحیح صحیح جائزہ لیا جائے اور پھر کامل ہوش مندی کے ساتھہ منصوبہ بندی کرکے اس پر اس قدر ہوشیاری کے ساتھہ عمل کیا جائے کہ ہدف کو یہ احساس تک نہ ہونے پائے کہ اس پر کس قسم کی جنگ مسلط کردی گئی ہے۔
نفسیاتی جنگ کے اس میدان میں دوسرے کو مغلوب بے اثر بلکہ زیر اثر اور تابع فرمان بنانے میں جو کامیابی حاصل کی جائے گی وہ کامیابی فوج کشی یا اعصابی جنگ کے نتیجے میں حاصل کی جانے والی فتح مندی کے مقابلے میں زیادہ دیرپا اور مفید ثابت ہوگی۔ اندراگاندھی کے دوبارہ برسراقتدار آتے ہی پاکستان کے خلاف وہ اعصابی جنگ پھر سے شروع کر دی گئی جو مرار جی ڈیسائی کے دورحکومت میں بند کی جا چکی تھی۔ راجیو گاندھی کے دور میں مسلم لیگ نون کی جانب سے یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ بھارتی قیادت نے نفسیاتی حربوں کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی کو رام کرنے کے بعد اپنا آلۂ کار بنانے کا منصوبہ بنایا ہے، لیکن اسوقت صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے موجودہ حکمرانوں نے دشمن کا کام آسان کر دیا ہو، لاہور جیسے شہر میں خوف و ہراس کا وہ عالم ہے کہ دن دہاڑے لوگ بچوں کو گلی میں بھیجنے سے ڈرتے ہیں، اسکولوں میں حاضریاں کم ہیں، چڑچڑا پن، مار پیٹ، ڈانٹ ڈپٹ اور بداعتمادی کے ڈیرے ہیں۔ ایسی فضا جنگ میں ہوتی ہے یا انتخابات کے دنوں میں۔ پاکستان حالت جنگ میں بھی ہے اور حکمران طبقہ اپنی کرسی بچانے اور آئندہ انتخابات کے لیے تیاری بھی رکھنا چاہتا ہے۔ اس شیطانی کھیل میں مغربی طاقتیں بھارت کیساتھ ہیں، اسی لیے بین الاقوامی برادری میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ جاری رکھا جاتا ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے اہم ہتھیار کے طور پر نفسیاتی حربے کا استعمال کر رہی ہیں۔ مایوسی پھیلانا، پاکستانی پاسپورٹ کے حوالے سے ہمارے تشخص کی تحقیر کرنا، اپنی طاقت اور مادی وسائل کی دھونس جمانا۔ اب تک اور آئندہ بھی مسلمانوں کو ان کے درخشاں مستقبل کی طرف سے مایوس کرنے اور اپنی پلید نیتوں کے مطابق انہیں خاص انجام کی طرف لے جانے کے لئے ہزاروں تشہیراتی حربے استعمال کئے گئے ہیں اور کئے جاتے رہیں گئے۔ یہ نفسیاتی جنگ استعمار کے پورے دور میں سب سے موثر حربہ اور اسلامی ممالک پر مغرب کے تسلط کا بہترین ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔ یہ زہر آلود تیر سب سے پہلے مرحلے میں دانشور طبقے اور روشن خیال افراد پر برسائے جاتے ہیں اور پھر عوام کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں میڈیا بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کا کردار بہت گہرا ہے۔ افواہیں بے شک سینہ بہ سینہ آگے بڑھتی ہیں، لیکن فی زمانہ معاشرے کا ایک فرد میڈیا کو اپنے دوست اور مشیر کے طور پر منتخب کرتا ہے اور خود اس سے بات کیے بغیر اس کی باتیں سنتا ہے۔ لوگ ٹی وی پروگرام دو مقاصد کے تحت دیکھتے ہیں، ایک وہ لوگ ہیں جو اپنی پسند کے پروگرام دیکھتے ہیں اور اگر ان کی پسنداور مقصد کا کوئي پروگرام نہ ہو تو وہ ٹی وی نہیں دیکھتے اور دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو بغیر کسی مقصد کے ٹی وی پروگرام دیکھتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ ٹی وی پروگراموں سے زیادہ اثر نہیں لیتے ہیں، لیکن دوسری قسم کے افراد پر ٹی وی پروگرام زیادہ اثرات مرتب کرتے ہیں اور وہ ٹی وی دیکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اسی وجہ سے ان کے طرز زندگی پر ٹی وی پروگراموں کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔
دشمن بھی اپنی مرضی کا طرز زندگی مسلط کرنے کے لیے وسائل کا استعمال کرتا ہے، کیونکہ یہ اقدار، رفتار و کردار اور مجموعی طور پر انسان کی عادات کے مجموعے کا نام ہے، جس میں اس کی زندگی سے تعلق رکھنے والی تمام چیزیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک معاشرہ بھی ایک خاص طرز زندگي کا حامل ہوتا ہے۔ طرز زندگی میں انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کے طرز زندگی شامل ہیں۔ سمجھا یہی جاتا ہے کہ لوگ خود اپنے طرز زندگی کا انتخاب کرتے ہیں۔ حالانکہ غیر محسوس طریقوں سے میڈیا ماہرین مسلسل اپنے ناظرین کی رائے معلوم کر
تے رہتے ہیں اور وہ ان کی رائے اور خیال جاننے کے بعد پروگرام تیار کرتے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تمام چیزیں اتنی سادگي سے انجام نہیں پاتی ہیں۔ جیسا کہ میڈیا کے شعبے کے ماہرین اس سلسلے میں خبر پہنچانے میں میڈیا کے بعض طریقوں کا ذکر کرتے ہوئے عوام کی سوچ پر میڈیا کے اثرات سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ میڈیا ماہرین کے مطابق ایک روش خبر کے گیٹ کیپر کے نام سے ہے کہ جس کے تحت انتخاب کا حق میڈیا کو ہی دیا جاتا ہے، یعنی یہ کہ میڈیا سب باتیں نہیں کہتا، بلکہ وہ مسائل بیان اور نشر کرتا ہے جو اس کی اپنی اسٹریٹجی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ میڈیا کی ایک اور روش ایجنڈا سیٹنگ ہے، جس کے تحت میڈیا ہاوسز تمام خبروں اور مطالب میں سے بعض مسائل کو نمایاں طور پر بیان کرتے ہیں، جبکہ ممکن ہے کہ وہ حقیقت میں اتنے اہم نہ ہوں جتنا میڈیا ان کو اہم بنا رہا ہے۔ لیکن ان دو روشوں سے اہم تیسری روش ہے، جسے فریمنگ یا خبر کو ایک خاص رنگ دینا کہتے ہیں۔ اس روش میں میڈیا ناظرین کے لیے ایک خاص فریم تیار کرتا ہے اور تمام مسائل اسی فریم کے تحت بیان کیے جاتے ہیں اور ان کی تشریح کی جاتی ہے۔ اس طرح ایک عرصے کے پروپیگنڈے کے بعد ناظرین میڈیا کے ساتھ ہم فکر ہو جاتے ہیں اور اسی فریم کے تحت دنیا کو دیکھتے ہیں۔
اگر ان حقائق کی روشنی میں دیکھیں تو بہت ساری چھوٹی چھوٹی چیزوں کو پاکستانی میڈیا غیر ملکی ایجنڈا کے تحت اتنا بڑا بنا کر پیش کرتا ہے کہ پورا ملک ہیجان میں مبتلا ہو جاتا ہے، جیسا کہ مشرق وسطیٰ کے حالات کو ایسا رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے پوری دنیا میں ہونے والی کشمکش کا مرکز خود پاکستان ہے، آج نہیں تو کل سب مسلمان آپس میں لڑتے ہوئے، اپنے ممالک کو تاراج کر دیں گے، یہ صہیونی ایجنڈا ہے۔ حال ہی میں بچوں کے اغوا کی افواہوں اور خبروں کو جو رنگ دیا گیا یہ کسی طور پر پاکستانی قوم کیساتھ خیر خواہی پہ مبنی نہیں، یہ یقینی طور پر بھارتی ایجنڈا ہے، دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اندرون ملک ہی ایسی لابی سرگرم ہو، جن کے مفادات بھارت کے مفادات سے میل کھاتے ہوں۔ ہمیں اسلامی جموریہ ایران کی قیادت کی طرف سے اپنی قوم کے نام جاری کی گئی تلقین کو یاد رکھنا چاہیے کہ خرابی ہمیشہ اندر سے واقع ہوتی ہے اور پھر سرطان کی طرح پورے نظام کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جب پھوڑا متعفن ہوجاتا ہے توپھر نشتر اور آپریشن ناگزیر ہوجاتا ہے، قدرت کا کوڑا برستا ہے اورآنے والی نسلوں کے لیے عبرت کے نشان چھوڑ جاتا ہے۔ یہ کوڑا کبھی چنگیز کی شکل میں نمودار ہوتا ہے ، کبھی ہلاکو کی صورت میں، کبھی تیمور کی صورت میں، کبھی نادر شاہ کی صورت میں اور کبھی آپس میں لڑ لڑ کر مرنے کی صورت میں۔ قدرت کی طرف سے یہ عذاب اس وقت نازل ہوتے ہیں جب اصلاح کا جذبہ اجتماعی طور پر ختم ہوجائے، آخری اور کاری ضرب اس وقت لگائی جاتی ہے جب خیر کا عنصر قومی جسد سے خارج ہوجاتا ہے۔
قانون قدرت یہ بھی ہے کہ جب تک کوئی قوم خود اپنے اندر تبدیلی کا خیال پیدا نہیں کرتی اس کی حالت تبدیل نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔ خرابی ہمیشہ اندر سے واقع ہوتی ہے اور پھر سرطان کی طرح پورے نظام کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جب پھوڑا متعفن ہوجاتا ہے توپھر نشتر اور آپریشن ناگزیر ہوجاتا ہے، قدرت کا کوڑا برستا ہے اورآنے والی نسلوں کے لیے عبرت کے نشان چھوڑ جاتا ہے۔ یہ کوڑا کبھی چنگیز کی شکل میں نمودار ہوتا ہے ، کبھی ہلاکو کی صورت میں، کبھی تیمور کی صورت میں، کبھی نادر شاہ کی صورت میں اور کبھی آپس میں لڑ لڑ کر مرنے کی صورت میں۔ قدرت کی طرف سے یہ عذاب اس وقت نازل ہوتے ہیں جب اصلاح کا جذبہ اجتماعی طور پر ختم ہوجائے یا اصلاح کی طرف متوجہ کرنے والے مٹھی بھر عناصر کی بات نہ سنی جائے، بلکہ ان کی تذلیل کی جائے۔ قدرت جلدی کسی قوم سے ناامید نہیں ہوتی ، انتظار کرتی ہے۔ آخری اور کاری ضرب اس وقت لگائی جاتی ہے جب خیر کا عنصر قومی جسد سے خارج ہوجاتا ہے۔ جذبہ حُریت ہی قوموں کو بیدار رکھتا ہے، آزادی کی تڑپ ہی دِل میں ولولہ پیدا کئے رکھتی ہے۔ جنگیں جدید ہتھیار سے لیس ہو کر یا تعداد کی کثرت سے نہیں، جذبوں سے جیتی جاتی ہیں۔ ملک کا دفاع ایسے ہی ہوتا ہے، جیسے اپنی بقاء کی جنگ۔ آج جنگ میں ہولناک ہتھیار، الفاظ کا پروپیگنڈہ ہے۔ جس قوم کا مورال گِر جائے، وُہ نفسیاتی طور پہ ہمت ہار بیٹھتی ہے۔ مورال قوم کے جذبوں میں خود اعتمادی اور ولولہ کو، حوصلہ اور برداشت کے ساتھ، برقرار رکھتے ہوئے بڑھاتا ہے۔ جس قوم کا مورال بڑھ جائے، وُہ کاغذ کے نقشہ پر بظاہر ہاری ہوئی بازی بھی جیت لیتی ہے۔