مضامین

ایک پاکستانی کے داعش کی قید میں چند روز

ارشد فاروق بٹ

چیچہ وطنی کے رہائشی زوہیب احمد تلاشِ معاش کے لیے لیبیا گئے لیکن ان کے ساتھ وہ ہوا جو ان کے وہم وگمان بھی نہیں تھا۔ تفصیلات کے لیے پڑھیےان کی یہ تحریر:
اپنے والد کے انتقال کے بعد میں اپنی ماں اور اپنی پانچ بہنوں کا واحد سہارا تھا۔ فکرِ معاش مجھے پریشان رکھتی اور در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد میں اپنے ایک رشتہ دار کے بلانے پر لیبیا چلا گیا۔ میں آزاد ویزہ پر گیا تھا جس کے مجھے دو لاکھ چالیس ہزار پاکستانی روپے ادا کرنے پڑے۔ ایک ماہ کام تلاش کرنے کے بعد جب مجھے ٹریڈ مکینک کا کام نہ ملا تو بن غازی شہر کی ایک کمپنی شرکت العرود میں رنگ کا کام کرنے لگا۔ چھ ماہ اس کمپنی میں کام کرنے کے بعد عالمیہ آئل کمپنی میں مجھے ملازمت مل گئی۔ لیبیا کی کرنسی کا ایک دینار تقریبا 75 پاکستانی روپے کے برابر تھا اس لیے شروع میں مجھے خوب نفع ہوا۔

امریکہ نے اس ملک کو جہنم بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ لیبیا میں حکومت اور فوج سے برسرپیکار گروپوں کو اسلحہ بھی انہی ممالک کی طرف سے آتا ہے۔ جس جگہ ہم رہ رہے تھے اس کے قریب ہی ایک پولیس کی چیک پوسٹ تھی جسے وہاں بوابہ کہا جاتا ہے۔ 2014 میں جب داعش کے قدم لیبیا میں مضبوط ہوئے تو پولیس کی چیک پوسٹوں پر حملے معمول بن گئے۔ ہماری رہائش چونکہ پولیس چیک پوسٹ کے قریب تھی اس لیے ہمیں اکثر راتیں جاگ کر باہر گزارنی پڑتیں۔ میزائل اور راکٹ لانچرز ہمارے اوپر سے سیٹی کی آواز دیتے گزرتے اور چیک پوسٹوں پر گرتے۔ایک دن اس جگہ پر قبضے کے لیے داعش اور فوج کے درمیان آخری لڑائی ہوئی۔ داعش نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ ہمارے مدیران یعنی کمپنی مالکان نے دونوں گروپوں سے بات کر کے ہمیں وہاں سے نکالنے کی تدبیر کی۔ مزدوروں کو وہاں عامل کہا جاتا ہے۔ ہم چار عامل بچتے بچاتے طرابلس پہنچے۔ جہاں ایئر پورٹ حکام نے ہمیں داعش کے کارندے سمجھ کر زندان میں ڈال دیا۔ میرے ساتھ دو عامل بنگلہ دیش کے تھے۔ ہمارے پاس پاسپورٹ اور ویزے ہونے کے باوجود انہوں نے ہمیں رقم ہتھیانے کی غرض سے زیر زمین تہہ خانے میں قید کر دیا اور ہمارے موبائل فونز اور سفری دستاویزات اپنے قبضہ میں لے لیں۔ اسی دوران تیونس کے ایک باشندے کو وہاں لا کر بدترین تشدد کیا گیا اور اس کے بالوں کو آگ لگا دی گئی۔ حکام کے چلے جانے کے بعد اس نے بتایا کہ اس کا چکن کا کاروبار ہے اور پولیس کو مفت گوشت نہ دینے پر اسے یہاں لا کے تشدد کیا گیا ہے۔

سخت سردی میں ہم نے رات اسی قید خانے میں گزاری۔ ہمارے ساتھ ایک بزرگ عامل میر پور کے تھے۔ ان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ہم دستک دیتے رہے لیکن کسی نہ کان نہ دھرے۔ اگلے دن گیارہ بجے ہمیں قریبی تھانے لے جایا گیا جہاں پولیس حکام ہماری رہائی کے بدلے رشوت طلب کرتے رہے۔ ہمارے پاس جو رقم تھی اس کی بندر بانٹ وہ پہلے ہی کر چکے تھے۔ مزید رقم کا بندوبست نہ ہونے پر انہوں نے ہمیں جیل بھیج دیا جہاں 400 سے زائد قیدی موجود تھے جن میں اکثریت افریقی باشندوں کی تھی۔ پولیس حکام ان پر لوہے کے پائپوں اور راڈز سے تشدد کرتے۔تقریباً چھ روز اس جیل میں گزارنے کے بعد حکام ہماری رہائی پر متفق ہو گئے لیکن جس رات ہمیں رہائی ملنا تھی اس رات اس جیل پر داعش کا حملہ ہوا اور وہ تمام قیدیوں اور پولیس حکام کو ساتھ لے گئے۔ اب ہم داعش کی قید میں تھے اور قیدیوں پر بدترین تشدد کرنے والے پولیس حکام بھی ہمارے ساتھ قید تھے جو مظلوم قیدیوں کے غیظ و غضب کا نشانہ وقفے وقفے سے بن رہے تھے۔

قیدیوں کو ساتھ لانے کا مقصد ان سے جنگی بیگار لینا تھا۔ داعش کے کارندے پڑھے لکھے اور انتہائی تربیت یافتہ تھے۔ ان کے پاس ہر قسم کے چھوٹے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود تھے جن کی دیکھ بھال وہ جنگی قیدیوں سے کرواتے اور شہروں میں حملوں کے دوران وہ قیدیوں کو انسانی شیلڈ کے طور پر استعمال کرتے۔ ہمارے ساتھ لائے گئے پولیس اہلکاروں کو سب کے سامنے باہر کھڑے کر کے ان کے سر مونڈھے گئے پھر ان کے سروں پر لوہے کے پائپوں سے ضربیں لگائی گئیں۔ داعش حکام ان سے اسلحہ ڈپوز کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ ہمیں کسی قید خانے کی بجائے کھلی جگہ پر ایک عید گاہ میں رکھا گیا اور اگر کوئی فوجی ان کے ہاتھ آ جاتا تو تمام قیدیوں کے سامنے چبوترے پر اسے ذبح کرتے۔

میڈیم گنوں کی بیرل صاف کرتے مجھے اکثر اپنی ماں اور بہنوں کی یاد ستاتی کہ نہ جانے کن حالات میں زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔ داعش کی قید سے نکلنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ ہماری دوبارہ سے تلاشی لی گئی تو ہمارے ایک ساتھی کے پاس سے کچھ یورو نکل آئے جو اس نے چھپا رکھے تھے۔ جھوٹ پکڑے جانے پر ہم پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کو بھی لیبیا کے قیدیوں کے ساتھ ایک کال کوٹھڑی میں ڈال دیا گیا۔ بعد میں ہم نے اپنے میر پور کے ساتھی کی جھوٹ بولنے اور پھنسانے پر لعن طعن کی۔
ہمیں بتایا گیا کہ ہماری ایمبیسی کے مدیر سے بات چیت کے بعد ہی ہماری رہائی کا کوئی بندوبست کیا جائے گا۔ بدقسمتی سے ہماری وہاں کی ایمبیسی بھی کرپٹ تھی اور پاکستانی افسران پھنسے پاکستانیوں کو نکالنے کے لیے رشوت طلب کرتے۔ چند روز بعد ہماری ایمبیسی میں اطلاع کی گئی اور ایک نیا افسر وہاں آیا اور ہماری رہائی کے بدلے 1500 دینار طلب کئے۔ یہ افسران رشوت کے پیسوں کا کچھ حصہ خود رکھتے اور باقی ان کو دیتے جن کی قید سے پاکستانیوں کو رہا کروانا مقصود ہوتا۔ پاکستانی وہاں بہت مشکلات میں زندگی ب
سر کرتے۔ جنگ زدہ ماحول میں لوگوں کے گھر جل گئے، بینک لوٹے گئے اور بیشتر پاکستانیوں کی سفری دستاویزات جل گئیں یا کھو گئیں یا چھین لی گئیں اور لیبیا کے حکام اور باغی ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹتے۔ ایسے میں پاکستانی ایمبیسی نے بھی لوگوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ پھنسے پاکستانیوں کو نکالنے کے لیے رشوت طلب کرتے اور یہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا۔

اس جیل میں چند روز گزارنے کے بعد ہمیں ایک چڑیا گھر لے جایا گیا جس پر حال ہی میں داعش نے قبضہ کر کے وہاں کے تمام جانور ہلاک کر دیے تھے۔ چڑیا گھر کی بیرونی دیوار کی جگہ لوہے کا جنگلہ لگا ہوا تھا اور ہمیں کہا گیا کہ جنگلے سے بنی چار دیواری پر لوہے کی چادر لگانی ہے تاکہ باہر سے اندر نظر نہ آئے۔ جنگلہ بہت اونچا تھا اور چادر کو لگانے اور ویلڈ کرنے کے لیے ہمیں چار دن لگ گئے۔ اس دوران مجھے تیز بخار ہو گیا۔ پھر ہمیں واپس اس جیل میں لایا گیا۔داعش کے پاس چوری شدہ گاڑیاں، کرینیں، توپیں اور جنگ و جدل کا سامان تھا جس کی صفائی اور مرمت کا کام قیدیوں سے لیا جاتا۔ مجھے ایک ٹینک سے بیٹری نکالنے کے لیے اس میں گھسنے کو کہا گیا۔ ٹینک کے اندر جگہ بہت تنگ تھی۔ میں ڈر کے مارے اندر نہ گیا کہ کہیں دم نہ گھٹ جائے یا یہ لوگ ٹینک کو اوپر سے بند کر مجھے قتل نہ کر دیں۔ اس پر مجھے گالیاں دی گئیں اور تشدد کیا گیا۔ میں اپنا زخمی چہرہ لیے داعش کے ایک بڑے افسر کے پاس گیا اور رحم کی اپیل کی اور خدا کا واسطہ دیا۔ افسر نے مجھے خدا کا واسطہ دینے پر لعن طعن کی اور وعدہ کیا کہ جلد تمہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ اس نے مجھ سے میری کمپنی کے مدیر کا نمبر لیا اور اس سے رابطہ کیا۔

قید کے اکیس روز بعد مجھے ایک نامعلوم مقام پر لے جایا گیا اور کہا گیا کہ اسی جگہ کھڑے رہو اور تمہیں یہاں سے تمہاری کمپنی کا مدیر لے جائے گا۔ میرا شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ویزہ سب غائب تھے۔ میں نے اگلا ایک مہینہ کمپنی کے ایک کمرے میں گزارا کہ جب تک میری سفری دستاویزات نہیں بن جاتیں میں باہر نہیں نکلوں گا۔اسی دوران گھر سے فون آیا اور والدہ کے انتقال کی اطلاع ملی۔ اگر ویزے کے لیے اپلائی کرتا تو ایک ماہ لگ جاتا۔ میں نے لیبیا کے حکام کو مجھے ڈیپورٹ کرنے کو کہا۔ اس کام پر مجھے تین دن لگ گئے۔ والدہ کے انتقال کے تین روز بعد جب گھر پہنچاتو زار و قطار روتی بہنیں اور قریبی عزیز و اقارب میرے منتظر تھے۔ اشکوں کے ہجوم میں گھرا میں سوچ رہا تھا کہ اب کبھی پردیس نہیں جاؤں گا۔

بشکریہ : دنیا نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button