گیارہ محرم کے اہم واقعات
شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ)
1.حضرت آدم(علیہ ا لسلام)کی وفات
خدا وند عالم کے حکم کے مطابق حضرت آدم(علیہ السلام)نے اپنے بیٹے شیث کو اپنا وصی بنایا اور نبوت کے اسرار کو آپ کے حوالہ کیا پھر فرمایا: (مرنے کے بعد) مجھے غسل دینا ، کفن پہنانا اور میرے اوپر نماز پڑھنا اور میرے بدن کو ایک تابوت میں رکھ دینا اور تم بھی اپنے مرنے کے وقت یہی باتیں اپنے بہترین فرزند کو سکھانا۔
کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم(علیہ السلام)کی ۹۳۰ سال زندگی بسر کرنے کے بعد وفات ہوئی ۔ حضرت شیث نے آپ کو ایک تابوت میں رکھا اور کوہ ابو قبیس میں دفن کردیا ،جب طوفان نوح آیا تو حضرت نوح(علیہ السلام)نے اس تابوت کو اٹھایا اور کشتی میں رکھ لیا پھر اس کو کوفہ لے گئے اور شہر نجف میں دفن کیا۔ حضرت آدم (علیہ السلام)اور حضرت نوح(علیہ السلام)کی قبریں مولا علی(علیہ السلام)کی قبر کے پاس ہیں(۱)۔
۱۔ حوادث الایام، ص ۳۸۔
2.اسیروں کے قافلہ کا کربلا سے روانہ ہونا
عمر بن سعد ملعون گیارہ محرم کو ظہر تک کربلا میں رہا اور اپنے جنازوں پر نماز پڑھ کر ان کودفن کیا ۔ بعد از ظہر اس نے حکم دیا : رسول خدا کی بیٹیوں کو بے کجاوا اونٹوں پر سوار کرو اور امام سجاد(علیہ السلام)کے گلے میں طوق و زنجیر باندھ کر ان کو قیدیوں کی طرح مقتل کی طرف سے لے کر چلے ۔
جس وقت عورتوں کی نظر شہداء کے لاشوں پر پڑی تو انہوں نے اپنے آپ کو اونٹوں کے اوپر سے شہداء کے لاشوں پر گرادیا۔
حضرت زینب کبری(سلام اللہ علیہا)کی نظر جب امام علیہ السلام کے بدن پر پڑی تو فرمایا: السلام علیک یا ذبیحا من القفا ۔ پھر بھائی کی لاش سے لپٹ کر گریہ فرمایا، عرض کیا: اختک لک الفداء یا بن محمد المصطفی و یا قرة عین فاطمة الزہراء ۔ اس کے بعد بہت درردناک آواز میں کہا: یا محمداہ صلی علیک ملیک السماء۔ یہ تمہارا حسین ہے کہ جس کے بدن کے اعضاء اپنے خون میں نہائے ہوئے ہیں، یہ آپ کی بیٹیاں ہیں جن کو اسیر کرلیا گیا، یہ آپ کا حسین ہے جس کا بدن زمین کربلا پر پڑا ہوا ہے۔
حضرت سکینہ نے نے اپنے والد کے جسم سے لپٹ کر گریہ و زاری کی اور فرمایا: بابا جان آپ کے قتل سے دشمن خوش ہوگئے ، بابا، بنی امیہ نے مجھے بچپن ہی میں یتیم کردیا، بابا جب رات آئے گی تو کون مجھے اپنے سینہ پر سلائے گا؟ بابا میرے گوشواروں اور میری عبا کو لوٹ لیا گیا۔
کفعمی نے نقل کیا ہے کہ حضرت سکینہ نے فرمایا: جب میں نے اپنے والد کے بدن سے لپٹ گئی تو مجھ پر غشی کا عالم طاری ہوگیا اس وقت میں نے سنا کہ میرے والد نے فرمایا: شیعتی مھما شربتم ماء عذب فاذکرونی
او سمعتم بغریب او شھید فاندبونی۔
3.امام حسین(علیہ السلام)کے اہلبیت کا کوفہ کیلئے روانہ ہونا
اسی دن بوقت عصر اہل بیت کو اسیری کی حالت میں کوفہ کی طرف روانہ کئے گئے۔ رات کے کسی حصہ میں کوفہ پہنچے ، صبح تک انہیں کوفہ کے دروازہ پر رہنا پڑا۔ عمر سعد ملعون صبح کے وقت کوفہ سے نکلا اور اسیران اہل بیت کو فوجی فتوحات کی طرح کوفہ کے اندر لایا(۱)۔
۱۔ تقویم شیعہ، ص ۳۰۔
4.علامہ حلی کی وفات
آیة اللہ ابو منصور حسن بن یوسف بن مطہر حلی ، مشہور بہ علامہ حلی کا ۷۲۶ ہجری میں”حلہ“ میں انتقال ہوااور نجف اشرف میں دفن ہوئے۔
ان بزرگوار نے خواجہ نصیر الدین طوسی،کاتب قزوینی اور حکیم منطقی شافعی کی طرح علم حاصل کیا۔ نقل کیا گیا ہے کہ علامہ بچپنے میں اجتہاد کے درجہ پر پہنچ گئے تھے اور لوگ منتظر تھے کہ وہ مکلف ہوجائیں تو ان کی تقلیدکریں۔ شیعہ امامیہ کی گردن پر ان کا بہت بڑا احسان ہے کیونکہ ان کے ذریعہ بہت سے لوگوں نے مذہب شیعہ قبول کیا خصوصا بادشاہ خدا بندہ (چنگیز خان حنفی کا پوتے)بھی آپ کے ہاتھوں شیعہ ہوا۔
مرحوم علامہ حلی نے تقریبا ۱۲۰ کتابیں لکھیں جن میں سے تبصرة المتعلمین، الفین، غایة الاصول، تذکرةالفقہاء زیادہ مشہور ہیں(۱)۔
۱۔ حوادث الایام، ص ۴۰۔