پاکستانی شیعہ خبریں
خواتین خاندانی،ذاتی معاملات سے لیکر اجتماعی معاملات تک سیدہ فاطمہ س کی شخصیت کو مدنظر رکھیں،
اسلامی تحریک کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ سیدہ فاطمۃ الزہرا س کی یاد اور پیغام کو زندہ رکھنے کے تین طریقے ہیں، پہلا یہ کہ ان کی ذات اقدس سے عقیدت و احترام اور محبت کا اظہار کیا جائے اور ان سے مکمل وابستگی دکھائی جائے۔ دوسرا یہ کہ ان کواسلام، انسانیت اور طبقہ نسواں کی خدمت کرنے پر خراج عقیدت و تحسین پیش کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ ان کے چھوڑے ہوئے قطعی و حتمی نقوش اور اصولوں کو تلاش کر کے ان کا مطالعہ کیا جائے اور ان کو آج کے دور میں نافذ کرنے اور ان کی تطبیق کرنے کے طریقے تلاش کئے جائیں کہ جس سے شریعت سہلہ کا تصور اجاگر ہو اور شریعت کی پابندی بھی برقرار رہے، انسان شتر بے مہار نہ بنے بلکہ اسلامی احکامات کا پابند رہے جبکہ آسان شریعت کو بھی ساتھ ملا کر چلے۔
دختر رسول اکرم ص حضرت فاطمہ زہرا س کے یوم ولادت باسعادت کی مناسبت سے اپنے پیغام میں علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ آزادی نسواں کے عالمی نعروں کو اگر حضرت سیدہ فاطمہ زہرا س کے کردار کی روشنی میں دیکھیں تو موجودہ نعرے فریب اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں، البتہ سیرت حضرت زہرا س کی روشنی میں آزادی نسواں کے تصور اور نظریے پر عمل کرنے سے عورت حقیقی معنوں میں ترقی کرسکتی ہے۔ معاشروں کی تعمیر کر سکتی ہے، نئی نسلوں کی کردار سازی کرسکتی ہے۔ سوسائٹی کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے، اپنے ذاتی، اجتماعی اور معاشرتی مسائل کا حل تلاش کرسکتی ہے۔ موجودہ سنگین دور میں جب خواتین میں فکری انتشار پیدا ہو چکا ہے۔ عورت کو فقط تفریح، تعیش اور نفسانی خواہشات کے لئے علامت بنا دیا گیا ہے اور ترقی و جدت کے نام پر عورتوں کا ہر معاشرے میں بالخصوص یورپ اور مغربی معاشروں میں شدت سے استحصال کیا جا رہا ہے، ایسے حالات میں سیدہ فاطمہ زہرا س کی سیرت اور کردار ہی واحد ذریعہ ہے جو دنیا بھر کی خواتین کو انحراف، استحصال، تعیش اور گناہوں سے بچا سکتا ہے اور ایسے کاموں سے عورتوں کو باز رکھنے میں رہنمائی کر سکتا ہے جس سے معاشرے میں تباہی پھیل رہی ہے۔ علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ آزادی نسواں کی حدود و قیود ہر سوسائٹی نے مقرر کر رکھی ہیں سوائے ان لوگوں کے جو مادر پدر آزاد ہیں اور کسی ضابطے، اخلاق اور قانون کے پابند نہیں اور ایسے ہی لوگ معاشروں کی تشکیل میں مصروف ہیں، جہاں عورت کو فحاشی کے لئے استعمال کیا جائے، اسکی عزت و حرمت کو پامال کیا جائے اور مرد و زن کے اختلاط سے معاشروں میں بگاڑ پیدا کیا جاسکے۔ لہذا ان حالات میں امت مسلمہ خواتین کی آزادی کے ان اصولوں کی روشنی میں جدوجہد کرے، جو جناب سیدہ فاطمہ س کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں کیونکہ سیدہ فاطمہ س کی پرورش آغوش رسول ص میں ہوئی۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے خاندانی، ذاتی معاملات سے لے کر اجتماعی معاملات تک ہر موقع پر سیدہ فاطمہ س کی شخصیت کو مدنظر رکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی گود سے ایسی نیک سیرت اور انقلابی نسلیں معاشرے کو فراہم کریں جو دنیا میں اسلامی انقلاب لانے کی استعداد رکھتی ہوں، جیسا کہ حضرت فاطمہ س کی پاکیزہ گود سے حسن ع اور حسین ع جیسی شخصیات پیدا ہوئیں، جنہوں نے وقت اور تاریخ کے دھارے کا رخ موڑا۔